- ساتوں رنگ
- او میرے مصروف خدا
- ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
- محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
- کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ
- مایوس نہ ہو اداس راہی
- رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
- ختم ہوا تاروں کا راگ
- حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
- ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
- کچھ کہہ کے خموش ہو گۓ ہم
- گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
- عشق میں جیت ہوئ یا مات
- دیکھ محبّت کا دستور
- نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے
- شہر در شہر گھر جلاۓ گۓ
- وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
- یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
- دن پھر آۓ ہیں باغ میں گُل کے
- کوئ جیے یا کوئ مرے
- یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئ
- نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
- کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جاۓ
- صداۓ رفتگاں پھر دل سے گزری
- گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
- خموشی انگلیاں چٹا رہی ہے
- کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی
- نصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیں
- تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں؟
- دور فلک جب دہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو
- سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
- یاد آتا ہے روز و شب کوئ
- یاس میں جب کوئ آنسو نکلا
- نۓ مضمون سُجھاتی ہے صبا
- کرتا اسے بےقرار کچھ دیر
- ٹھہرا تھا وہ گل عذار کچھ دیر
- پھر شامِ وصالِ یار آئ
- اوّلیں چاند نے کیا بات سُجھائ مجھ کو
- کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا
- رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
- دن ڈھلا رات پھر آ گئ، سو رہو سو رہو
- تنہا عیش کے خواب نہ بُن
- ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائ
- اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئ
- بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز
- دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
- یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظّارا
- تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئ
- خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی
- یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو
- فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے
- ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے
- شبنم آلود پلک یاد آئ
- عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
- کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے
- آئینہ لے لے صبا پھر آئ
- کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئ
- کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
- نِت نئ سوچ میں لگے رہنا
- سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
- مدّت ہوئ کہ سیرِ چمن کو ترس گۓ
- خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
- رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
- بیگانہ وار اس سے ملاقات ہو تو ہو
- حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
- وہ اس ادا سے جو آۓ تو یوں بھلا نہ لگے
- آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
- نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
- ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے
- پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
- مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
- ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
- اپنی دھن میں رہتا ہوں
- سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
- رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
- دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
- گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
- اس سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
- گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چ
- جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
- شہر سنسان ہے کدھر جائیں
- دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
- اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
- پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
- دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
- سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
- دھوپ نکلی دن سہانےہو گئے
- تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہی
- آج تو بے سبب اداس ہے جی
- جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے
- زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
- بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
- پھر نئی فصل کے عنواں چمکے
- موسمِ گلزارِ ہستی ان دنوں کیا ہے نہ پوچھ
- تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
- اس دنیا میں اپنا کیا ہے
- تو ہے یا تیرا سایا ہے
- دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیئے
- شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا
- درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
- جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنادوں گا
- تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش
- چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
- رات ڈھل رہی ہے
- میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
- گا رہا تھا کوئی درختوں میں
- کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے س
- کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
- اس کے آنے کی کچھ کہو یارو
- چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں
- یہ آج کون سے طوفاں میں ہے سفینۂ دل
- اے دردِ ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں
- دھوپ نگلی دن سہانے ہو گۓ
- گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات
- دل میں اک ہوک سی اٹھی ہے ابھی
- پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
- دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
- میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
- جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا
- وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
- زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
- یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر
- گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا و&
- رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں
- کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
- دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
- دیس سبز جھلیوں کا
- غم ہے یا خوشی ہے تو
- کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور
- جنت ماہی گیروں کی
- شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے
- بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جانکلے
- چند گھرانوں نے مل جل کر
- کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی
- شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
- کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے
- کُنج کُنج نغمہ زن بسنت آگئی
- برف گرتی رہے آگ جلتی رہے
- شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی
- سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
- جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
- پھر لہو بول رہا ہے دل میں
- یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
- تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
- دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ
- یہ خوابِ سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی
- کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
- ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر
- کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں
- دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
- اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
- صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا
- قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
- جرمِ انکار کی سزا ہی دے
- نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس ک
- درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
- ہنستے گاتے روتے پھول
- ایسا بھی کوئی سپنا جاگے
- حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو
- چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
- دل میں اور تو کیا رکھا ہے
- رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
- کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے س
- رات نیند آگئی درختوں میں
- خالی رستہ بول رہا ہے
- ناؤ چل رہی ہے
- سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں
- ہم ہی بیٹھے رہے مگر خاموش
- میرے گیتوں کا دیوانہ پن پھول ہے
- تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹادوں گا
- جانے کیا اضطراب میں دیکھا
- زندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیئے
- خاموشی کا قفل پڑا ہے
- شہر میں تیرا پتہ کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ
- کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
- کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
- آج تو یوں خاموش ہے دنیا
- NAsir Kazmi