- ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا .. (22 replies)
- مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے (6 replies)
- ۔ لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی (6 replies)
- مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے (6 replies)
- آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے (7 replies)
- ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگِ تمنا (4 replies)
- سیاہی جیسے گِر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر (6 replies)
- ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عر ضِ یک افغاں ہے (4 replies)
- خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے (4 replies)
- جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے (4 replies)
- آ ئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے (6 replies)
- شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے (4 replies)
- منظورتھی یہ شکل تجلّی کو نور کی (4 replies)
- غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے (4 replies)
- زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے (6 replies)
- کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں ، گر آجائے ہے ، مُ (6 replies)
- لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے (6 replies)
- بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے (2 replies)
- ۔ کہوں جو حال تو کہتے ہو “مدعا کہیے (2 replies)
- رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گۓ (2 replies)
- نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب (2 replies)
- عرضِ نازِ شوخئِ دنداں براۓ خندہ ہے (2 replies)
- حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے (2 replies)
- جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی (2 replies)
- ابنِ مریم ہوا کرے کوئی (2 replies)
- بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟ (2 replies)
- باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے (2 replies)
- روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی (2 replies)
- ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے (2 replies)
- کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے (3 replies)
- حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے (3 replies)
- ہر قدم دورئِ منزل ہے نمایاں مجھ سے (3 replies)
- چاہیے اچھّوں کو ، جتنا چاہیے (3 replies)
- نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے (3 replies)
- چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عُریانی کرے (3 replies)
- وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے (3 replies)
- تپِش سے میری ، وقفِ کش مکش ، ہر تارِ بستر ہے (3 replies)
- خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے (2 replies)
- فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے (2 replies)
- نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا (3 replies)
- ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے (3 replies)
- کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ (3 replies)
- کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہ (3 replies)
- دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے (0 replies)
- دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے (0 replies)
- یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ “یارب” ، مجھے (0 replies)
- ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں (0 replies)
- سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم (0 replies)
- جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی (0 replies)
- پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد (0 replies)
- ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے (0 replies)
- جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے (0 replies)
- حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے (0 replies)
- نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی (0 replies)
- عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے (0 replies)
- شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے (0 replies)
- ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے (0 replies)
- غیر لیں محفل میں بوسے جام کے (0 replies)
- پھر اس انداز سے بہار آئی (1 replies)
- تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے (1 replies)
- کب وہ سنتا ہے کہانی میری (1 replies)
- نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب (1 replies)
- گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے (0 replies)
- تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے (0 replies)
- کوئی امّید بر نہیں آتی (0 replies)
- دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟ (0 replies)
- کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے (0 replies)
- پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے (0 replies)
- جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی (0 replies)
- نِکوہِش ہے سزا فریادئِ بیدادِ دِلبر کی (0 replies)
- بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے (0 replies)
- ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے (0 replies)
- جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی (0 replies)
- آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے (0 replies)
- میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں (0 replies)
- اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے (0 replies)
- زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ (0 replies)
- رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے (0 replies)
- دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے (0 replies)
- گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے (0 replies)
- کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے (0 replies)
- سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے (1 replies)
- ۔ اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ ہم بیابا (1 replies)
- دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی (1 replies)
- بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی (1 replies)
- ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے (1 replies)
- تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا (1 replies)
- گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا (1 replies)
- غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی (1 replies)
- حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی (0 replies)
- کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے (0 replies)
- درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے (0 replies)
- سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے (0 replies)
- گر خامشی سے فائدہ اخفاۓ حال ہے (0 replies)
- تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے* پوچھو (0 replies)
- ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو* بھی مٹ گیا (0 replies)
- پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے (0 replies)
- مری ہستی فضاۓ حیرت آبادِ تمنّا ہے (0 replies)
- رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے (0 replies)
- چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے (0 replies)
- عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی (0 replies)
- ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے (0 replies)
- ہم بے خودئ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے (0 replies)
- اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں (0 replies)
- ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں (0 replies)
- جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں (0 replies)
- میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ (0 replies)
- مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل (0 replies)
- دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں (0 replies)
- حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو (0 replies)
- کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں (0 replies)
- وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو (0 replies)
- ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو (0 replies)
- ملی نہ وسعتِ جولان یک جنون ہم کو (0 replies)
- قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون (0 replies)
- واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار (0 replies)
- واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو (0 replies)
- تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو (0 replies)
- گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو (0 replies)
- کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو (0 replies)
- رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو (0 replies)
- بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو (0 replies)
- شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ (0 replies)
- از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ (0 replies)
- ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ (0 replies)
- نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ (0 replies)
- ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا (0 replies)
- صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے (0 replies)
- مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے (0 replies)
- غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں (4 replies)
- دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیو (0 replies)
- مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں (0 replies)
- نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں (0 replies)
- دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں (0 replies)
- ۔دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں (0 replies)
- سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں (0 replies)
- زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ (0 replies)
- تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں (0 replies)
- نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں (0 replies)
- یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں (0 replies)
- دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا (0 replies)
- قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا (0 replies)
- ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر (0 replies)
- دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا (0 replies)
- نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں (0 replies)
- ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں (0 replies)
- حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں (0 replies)
- کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں (0 replies)
- ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں (0 replies)
- جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں (0 replies)
- عشق تاثیر سے نومید نہیں (0 replies)
- برشکالِ* گریۂ عاشق ہے* دیکھا چاہۓ (0 replies)
- مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں (0 replies)
- مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں (2 replies)
- ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں (0 replies)
- ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن (2 replies)
- میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں (0 replies)
- عہدے سے مدِحناز کے باہر نہ آ سکا (0 replies)
- آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں (0 replies)
- کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں (0 replies)
- وہ فراق اور وہ وصال کہاں (2 replies)
- لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے (0 replies)
- رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے (0 replies)
- مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور (0 replies)
- بـہ نالہ دل بستگـی فراہــم کـر (0 replies)
- غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس (0 replies)
- ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل (0 replies)
- گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت ، دُعا نہ مانگ (0 replies)
- دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار (0 replies)
- آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے* تک (0 replies)
- زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک (0 replies)
- بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش (0 replies)
- رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع (0 replies)
- جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع (0 replies)
- اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوۓ باغ ہیں (0 replies)
- نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے (0 replies)
- مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے (0 replies)
- نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز (0 replies)
- گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی (0 replies)
- وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک (0 replies)
- کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز (0 replies)
- حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز (0 replies)
- لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور (0 replies)
- فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر (0 replies)
- ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں (0 replies)
- جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی (0 replies)
- صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر (0 replies)
- ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور (0 replies)
- لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر (0 replies)
- کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر (1 replies)
- گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر (1 replies)
- بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار (1 replies)
- تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے (1 replies)
- ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم (1 replies)
- حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد (1 replies)
- نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ (1 replies)
- لو ہم مریضِ عشق کے بیماردار ہیں (1 replies)
- معزولئ تپش ہوئی افرازِ انتظار (1 replies)
- گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج (1 replies)
- مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ (1 replies)
- آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست (1 replies)
- رہا گر کوئی تا قیامت سلامت (1 replies)
- افسوس کہ دنداں* کا کیا رزق فلک نے (1 replies)
- پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب (1 replies)
- دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی (1 replies)
- شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے، دل بے تاب تھا (1 replies)
- عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنرمندی اسدؔ (1 replies)
- بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا (1 replies)
- بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج (1 replies)
- اسدؔ! یہ عجز و بے سامانئِ فرعون توَام ہے (1 replies)
- پھر وہ سوۓ چمن آتا ہے خدا خیر کرے (1 replies)
- شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا (3 replies)
- عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا (1 replies)
- لطافت بےکثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی (1 replies)
- جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا (3 replies)
- غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں (3 replies)
- سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت* یہ ہے (3 replies)
- ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا (3 replies)
- رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف! (3 replies)
- عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا (3 replies)
- فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں (3 replies)
- ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا (3 replies)
- آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے (3 replies)
- شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا (3 replies)
- تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا (0 replies)
- لب خشک در تشنگی، مردگاں کا (0 replies)
- ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا (0 replies)
- پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا (0 replies)
- وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا (0 replies)
- یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا (3 replies)
- نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوت& (0 replies)
- گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا (0 replies)
- میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں (0 replies)
- جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا (0 replies)
- قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا (0 replies)
- گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا (0 replies)
- درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا (0 replies)
- گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا (0 replies)
- پۓ نذرِ کرم تحفہ ہے ‘شرمِ نا رسائی’ کا (1 replies)
- اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں (1 replies)
- درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا (0 replies)
- ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا (0 replies)
- یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا (1 replies)
- دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا (0 replies)
- شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا (0 replies)
- بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا (0 replies)
- ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب (0 replies)
- نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا (0 replies)
- نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا (0 replies)
- شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا (1 replies)