Originally Posted by intelligent086 09-10-2014 ویران درگاہ میں آواز اک بڑی درگاہ تھی اور ہلکی ہلکی چاندنی مسکراہٹ جیسے پیلے آدمی کی نعش کی چلتے چلتے میں نے کوئی سرسراہٹ سی سنی ہولے ہولے پاس آئی ایک آہٹ سی سنی دور تک کچھ بھی نہ تھا معبد کے سایے کے سوا میری اپنی چاپ سے ہی میرا دل ڈرنے لگا خوف سے گھبرا کے میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اُف خدا! یہ سانس جیسے اک قیامت بن گئی دیر تک جیسے سفر کرتی ہے گنبد کی صدا تھا اثر ایسا ہی کچھ اس میری آہِ سرد کا صحن سارا سہمی سہمی آہٹوں سے بھر گیا بڑھ رہا ہو چھپ کے جیسے دشمنوں کا قافلہ ’’کون ہے؟‘‘ میں اک عجب موجودگی سے ڈر گیا جیسے کوئی تھا وہاں پر، پھر بھی وہ روپوش تھا ’’کون ہے؟‘‘ ۔۔ ’’کون ہے؟‘‘ ۔۔’’کون ہے؟‘‘ یوں جواب آتا رہا جیسے کوئی بے چین لَے ’’کیا کہاں کوئی نہیں ہے؟‘‘ میں نے پھر ڈر کر کہا ’’کوئی ہے ۔۔ کوئی نہیں ہے کوئی ہے ۔۔ کوئی نہیں ہے۔۔‘‘ دیر تک ہوتا رہا Umda intekhab Sharing ka shukariya
Originally Posted by Dr Danish Umda intekhab Sharing ka shukariya پسندیدگی کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks