فنا اور بقا
ابھی ان گنت دلربا صورتیں ہیں
جو مٹّی کے ذرّوں، ہوا کے جھکوروں، فلک کے ستاروں، گُلوں کے تعطّر میں پوشیدہ و نا دمیدہ پڑی ہیں
کبھی شام آئے گی
جب ہر جگہ ان کی باتوں کی بجتی ہوئی گھنٹیوں کے مدھُر شور کی لَے سے بھر جائے گی
ہر گلی ان کے نازک دبے پاؤں چلنے کی آہٹ کے جادو میں کھو جائے گی
ہر بجھی صبح ان کے تنفّس کی جلتی ہوئی خوشبوؤں سے مہک جائے گی
[پھر اسی طرح جیسے تم اب میرے پہلو میں چپ بیٹھی شرما رہی ہو
کبھی رات آئے گی
جب وہ بھی سولہ سنگھاروں سے سج کر
کسی پریمی کی میٹھی سنگت میں بیٹھی
خود اپنی ہی سوچوں سے شرمائیں گی
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote


Bookmarks