دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے ان کو تشویشِ روزگار کہاں ؟ درد بیچیں گے گیت گائیں گے اِس سے خوش وقت کاروبار کہاں ؟ جام چھلکا تو جم گئی محفل مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟ اشک ٹپکا تو کھِل گیا گلشن رنجِ کم ظرفیِ بہار کسے؟ خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد دَیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی نقدِ شمس و قمر کی بات کرے جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے جائے تسخیرِ کائنات کرے
Bookmarks