محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے ، پردہ ہے ساز کا تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا ہیں ، بسکہ جوشِ بادہ سے ، شیشے اچھل رہے ہر گوشۂ بساط، ہے سر شیشہ باز کا تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
Bookmarks