اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد!
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد مراد؟
قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote


Bookmarks