Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
وہ ابر تھے کہ برس کر بھی رات بھر نہ کھلے


سحر ہوئی بھی مگر روشنی کے در نہ کھلے


میں موج موج سے لپکا بھی ساحلوں کی طرف
بندھے ہوئے تھے بدن سے جو وہ بھنور نہ کھلے

بھرے ہجوم میں تنہا بس ایک میں ہی تو تھا
میرے ہی ساتھ فقط میرے ہم سفر نہ کھلے

میں جان کر بھی اسے بڑھ رہا ہوں اس کی طرف
سراب دیکھ کے بھی چشمِ بے خبر نہ کھلے

بدن جلاتی ر ہی خشک شاخ کی چھاؤں
بہار بیت گئی ، جوہرِ شجر نہ کھلے

عقاب دیکھ کے پتھرا گیا میں اڑتے ہوئے
زمیں پہ ٹوٹ گیا ، گر کے میرے پر نہ کھلے

زمیں پہ بیٹھ گیا ہوں میں آشیاں لے کر
میرے لیے تو کہیں بازوئے شجر نہ کھلے

مگر بندھی ہی رہی کوہِ سبز کی گٹھڑی
جھلستے پاؤں چھاؤں کے یہ سفر نہ کھلے

وہ سامنے میرے بھیگا ہوا کھڑا ہے عدیم
کچھ اور دیر ابھی کاش چشمِ تر نہ کھلے

Khobsurat Intekhab
Share karne ka Shukariya