Originally Posted by Ahmak E Azam عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا میں یہ سمجھتا رہا، اُس نے ایک وار کِیا عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا جو شخص پیار کے قابل تھا، اُس کو پیار کِیا پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا یہ کام اُس کے لیے ہم نے بار بار کِیا کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی کِسی سے پیار کِیا ہے تو بےشمار کِیا نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا اُمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا بہت حسین ہوئیں بےوفائیاں اُس کی یہ اُس نے جان کے خُود کو وفا شعار کِیا اُتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اُترا اُسے سدا کے لیے شاملِ غُبار کِیا وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں میں مطمئن ہوں کہ پہلے اُسی نے وار کِیا قصُور اُس کا نہیں ہے، قصُور میرا ہے عدیم مَیں نے اُسے پیار بےشمار کیا عدیم ہاشمی umda intekhab thanks
Originally Posted by Dr Danish umda intekhab thanks
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks