Originally Posted by intelligent086 میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا! Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks