ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں وہ جو ہے جو *کہیں* نہیں اس کا سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں اپنی بے روزگاریِ جاوید اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں شب خرابات میں تھا حشر بپا کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں کیا کہوں فاصلے کے بارے میں رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں
Bookmarks