کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں یقیں کا راستہ طے کرنے والے بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں یہ مت بھُولو کہ یہ لمحات ہم کو بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں تمہیں چاہیں گے جب چھِن جاؤ گی تو ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں
Daleelon se isse qaeil kiya tha دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں یہ جذبہ عشق ہے یا جذبۂ رحم ترے آنسو مجھے رُلوا رہے ہیں عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں
Bookmarks