Originally Posted by intelligent086 بزم سے جب نگار اٹھتا ہے میرے دل سے غبار اٹھتا ہے میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے اس کی گُل گشت سے روش بہ روش رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے تیرے جاتے ہی اس خرابے سے شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟ لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال دشت سے خاکسار اٹھتا ہے ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا آدمی کو پکار اٹھتا ہے تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے آج دیوانہ وار اٹھتا ہے اپنے ہاں تو زمانے والوں کا روز ہی اعتبار اٹھتا ہے جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی میر و غالب کا یار اٹھتا ہے Nice sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Bht Umda Sharing Keep it up Originally Posted by Dr Danish Nice sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks