Originally Posted by intelligent086 خوشبو ہے وہ تو چھُو کے بدن کو گزر نہ جائے جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے خود پھُول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا چوری تمام رنگ کی ، تتلی کے سر نہ جائے ایسا نہ ہو کہ لمس بدن کی سزا بنے جی پھُول کا ، ہَوا کی محبت سے بھر نہ جائے اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے کھو کر مجھے، یہ لڑکی کہیں دُکھ سے مر نہ جائے شدّت کی نفرتوں میں سدا جس نے سانس لی شدّت کا پیار پا کے خلا میں بکھر نہ جائے اُس وقت تک کناروں سے ندّی چڑھی رہے جب تک سمندر کے بدن میں اُتر نہ جائے پلکوں کو اُس کی ، اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں کل کے سفر کی گردِ سفر نہ جائے میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دُعا قاصد، ہوا، ستارہ کوئی اُس کے گھر نہ جائے *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks