Originally Posted by intelligent086 شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے رنگ ہی غم کے نہیں ، نقش بھی پیارے نکلے ایک موہوم تمّنا کے سہارے نکلے چاند کے ساتھ ترے ہجر کے مارے نکلے کوئی موسم ہو مگر شانِ خم و پیچ وہی رات کی طرح کوئی زُلف سنوارے نکلے رقص جن کا ہمیں ساحل سے بھگا لایا تھا وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا عشق کے باب میں سب جُرم ہمارے نکلے عشق دریا ہے، جو تیرے وہ تہی دست رہے وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے دھوپ کی رُت میں کوئی چھاؤں اُگاتا کیسے شاخ پھوٹی تھی کہ ہمسایوں میں آرے نکلے *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks