Originally Posted by intelligent086 آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا واں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا غیروں کی دشمنی نے نہ مارا، مگر ہمیں اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ ’’مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا! *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks