Originally Posted by intelligent086 لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے ملنا __ دو بارہ ملنے کو وعدہ __ جُدائیاں اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے روئی ہوں آج کھُل کے، بڑی مُدتوں کے بعد بادل جو آسمان پہ چھائے تھے، چھٹ گئے کِس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل آئی ہوا تو کِتنے ورق ہی اُلٹ گئے شہرِ وفا میں دھُوپ کا ساتھی کوئی نہیں سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں جھونکے ہَوا کے، کیسے گلے سے لپٹ گئے دستِ ہَوا نے جیسے درانتی سنبھال لی اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے *** Nice Sharing ...... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ...... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks