یہ دُکھ جو برف کا طوفان بن کے آیا ہے پہاڑ والوں پہ کیسے عذاب لایا ہے یہ زندہ رہنے کی خاطر ، اجازتوں کا دُکھ بطور قرض کے حاصل ، محبتوں کا دُکھ یہ غم کہ رات کی دہلیز اپنا گھر ہو گی تمام عالمِ امکاں میں جب سحر ہو گی یہ دُکھ کہ چھوڑ گئے انتہا پہ آ کر ساتھ
سیاہ ہاتھوں پہ تقدیر لکھنے والے ہاتھ مسافرانِ شبِ غم ، اسیرِ دار ہُوئے جو رہنما تھے ، بِکے او ر شہر یار ہُوئے
Bookmarks