Quote Originally Posted by intelligent086 View Post



ایک بُری عورت



ایک بُری عورت
وہ اگرچہ مطربہ ہے
لیکن اُس کے دامِ صورت سے زیادہ
شہر اُس کے جسم کا اسیر ہے
وہ آگ میں گلاب گوندھ کر کمالِ آزری سے پہلوی تراش پانے والا جسم
جس کو آفتاب کی کرن جہاں سے چُومتی ہے
رنگ کی پھوار پھوٹتی ہے!
ا س کے حسنِ بے پناہ کی چمک
کسی قدیم لوک داستان کے جمال کی طرح
تمام عُمر لاشعور کو اسیرِ رنگ رکھتی ہے!
گئے زمانوں میں کسی پری کو مُڑ کے دیکھنے سے لوگ
باقی عُمر قیدِ سنگ کاٹتے تھے
یاں ___سزائے باز دید آگ ہے!
یہ آزمائشِ شکیبِ ناصحاں و امتحانِ زُہدِ واعظاں
دریچۂ مُراد کھول کر ذرا جھُکے
تو شہرِ عاشقاں کے سارے سبز خط
خدائے تن سے،
شب عذار ہونے کی دُعا کریں
جواں لہُو کا ذکر کیا
یہ آتشہ تو
پیرِ سال خوردہ کو صبح خیز کر دے

شہر اس کی دلکشی کے بوجھ سے چٹخ رہا ہے
کیا عجیب حُسن ہے،
کہ جس سے ڈر کے مائیں اپنی کوکھ جائیوں کو،
کوڑھ صورتی کی بد دُعائیں دے رہی ہیں
کنواریاں تو کیا
کہ کھیلی کھائی عورتیں بھی جس کے سائے سے پناہ مانگتی ہیں
بیاہتا دِلوں میں اس کا حُسن خوف بن کے یوں دھڑکتا ہے
کہ گھر کے مرد شام تک نہ لوٹ آئیں تو
وفا شعار بیبیاں دُعائے نور پڑھنے لگتی ہیں !


کوئی برس نہیں گیا
کہ اس کے قرب کی سزا میں
شہر کے سبہی قدر داں
نہ قامتِ صلیب کی قبا ہُوئے
وہ نہر جس پہ ہر سحر یہ خوش جمال بال دھونے جاتی ہے
اُسے فقیہِ شہر نے نجس قرار دے دیا
تمام نیک مرد اس سے خوف کھاتے ہیں
اگر بکارِ خسروی
کبھی کسی کو اس کی راندۂ جہاں گلی سے ہوکے جانا ہو
تو سب کلاہ دار،
اپنی عصمتیں بچائے یوں نکلتے ہیں ،
کہ جیسے اس گلی کی ساری کھڑکیاں
زنانِ مصر کی طرح سے
اُن کے پچھلے دامنوں کو کھینچنے لگی ہیں


یہ گئی اماوسوں کا ذکر ہے
کہ ایک شام گھر کو لوٹتے ہُوئے میں راستہ بھٹک گئی
مری تلاش مجھ کو جنگلوں میں لا کے تھک گئی
میں راہ کھوجتی ہی رہ گئی
اس ابتلا میں چاند سبز چشم ہو چکا تھا
جگنوؤں سے اُمید باندھتی
مہیب شب ہر اس بن کے جسم و جاں پہ یوں اُتر رہی تھی
جیسے میرے روئیں روئیں میں
کسی بلا کا ہاتھ سرسرا رہا ہو
زندگی میں ۔۔۔ خامشی سے اِتنا ڈر کبھی نہیں لگا!
کوئی پرند پاؤں بھی بدلتا تھا تو نبض ڈوب جاتی تھی
میں ایک آسماں چشیدہ پیڑ کے سیہ تنے سے سرٹکائے
تازہ پتّے کی طرح لرز رہی تھی
ناگہاں کسی گھنیری شاخ کو ہٹا کے
روشنی کے دو الاؤ یوں دہک اُٹھے
کہ ان کی آنچ میرے ناخنوں تک آ رہی تھی
ایک جست۔۔۔
اور قریب تھا کہ ہانپتی ہُوئی بلا
مری رگ گلو میں اپنے دانت گاڑتی
کہ دفعتاً کسی درخت کے عقب میں چوڑیاں بجیں
لباس شب کی سلوٹوں میں چرمرائے زرد پتّوں کی ہری کہانیاں لیے
وصالِ تشنہ کا گلال آنکھ میں
لبوں پہ ورم ، گال پر خراش
سنبلیں کھُلے ہُوئے دراز گیسوؤں میں آنکھ مارتا ہُوا گُلاب
اور چھلی ہُوئی سپید کہنیوں میں اوس اور دھُول کی ملی جلی ہنسی لیے
وہی بلا ، وہی نجس، وہی بدن دریدہ فاحشہ
تڑپ کے آئی___اور__
میرے اور بھیڑیے کے درمیان ڈٹ گئی
Nice Sharing.....
Thanks