Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
یار دیرینہ ہے پر روز ہے وہ یار نیا
ہر ستم اس کا نیا اس کا ہے ہر پیار نیا

نئی انداز کا ہے دام بلا طرہ یار
روز ہے ایک نہ اک اس میں گرفتار نیا

تیری ہاں میں ہے نہیں اور نہیں میں ہے ہاں
تیرا اقرار نیا ہے ترا انکار نیا

کیسے بیدرد دل آزار کو دل ہم نے دیا
روز ہے درد نیا، روز اک آزار نیا

کیا قیامت ہے ستمگار تری طرز خرام
فتنہ ہر گام پہ اٹھا دم رفتار نیا

کریں وہ کس کی دوا دیکھتے ہیں رو ز طبیب
تیرے اس نرگس بیمار کا بیمار نیا

پھیر لے اس سے ظفر دل کا جو سودا پھر جائے
ایک موجود ہے اور اس کا خریدار نیا

Nice Sharing.....
Thanks