سب سے پہلی بات یہ کہ تحریر اور عام بول چال کی زبان میں بہت فرق ہوتا ہے۔عام زندگی میں آپ جس قدر بھی بے ربط جملے بولیں،لیکن تحریر کے جملوں میں ایک ربط،تسلسل،بہاؤ اور تنظیم ہوتی ہے۔آپ کے تحریر کی ابتداء سے لگا کہ یہ ایک سفر نامہ ہے،مگر بات سفر نامے سے ہٹ گئی۔
سفر نامے کا حسن،اس کی منظر نگاری ہوتی ہے،تفصیلات کا دلچسپ بیان ہوتاہے اور منظر نگاری اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب آپ کا مشاہدہ گہرا اور پختہ ہو اور یہ چیزیں تجربے سے حاصل ہوتی ہے اور کچھ خداداد صلاحیتوں کی صورت میں عطیہ۔
رہی بات شیخوں،ان کےمحلات اور مشاغل کی،تو بات ایسی ہے کہ پاکستان کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی،غریب عوام کےساتھ برابری کا برتاؤ،ان کے مسائل کا حل،وسائل تک رسائی،یہ سب حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے،ناں کہ ان شیخوں کی۔وہ اس سے ہر طرح سے بری الذمہ ہیں کیونکہ اپنے ملک میں انھوں نے اپنے عوام کو تمام تر سہولیات مہیا کی ہوئی ہیں۔پاکستان اور اس کے عوام ان کی ذمہ داری نہیں۔
آپ نے لکھا کہ فوج کے مفاد میں وہ پیسہ استعمال ہوتا ہے جو وہ وہاں مختلف کام کر کے کماتے ہیں تو کبھی غیرجانبداری سے سوچنا فوج کس کے مفاد میں کام کرتی ہے۔۔۔۔اپنے یا ہمارے۔۔۔؟ جان بوجھ کر اپنے لئے موت کی خواہش کون کرتا ہے۔۔۔کوئی نہیں۔پر وطن اور ہم وطنوں کی حفاظت پر معمور ایک فوجی کی اولین خواہش،شہادت ہوتی ہے۔۔!
آپ نے شاید اردو ٹائپنگ کے لئے گوگل ٹرانسلیٹر کا استعمال کیا ہے،اس سوفٹ وئیر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بہت سارے الفاظ کا اپنا املا کردیتاہے اس لئے آپ کی تحریر میں بھی مجھے جا بجا املا کی اغلاط نظر آئیں۔۔۔!
اپنی ہر ایک بات کے لئے معذرت خواں ہوں۔مقصد تنقید کرنا نہیں،اسلوب سکھانا ہے۔۔۔۔کہ لکھنا آتا ہے تو بہتر ہے کہ بہترین طریقے سے لکھے۔
لکھتی رہئیے،،،خوش رہئیے۔۔۔!
Bookmarks