ضمیر لالہ مے لعل سے ہوا لبریزاشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیزبچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنیکیا ہے اس نے فقیروں کو وارث پرویزپرانے ہیں یہ ستارے ، فلک بھی فرسودہجہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیزکسے خبر ہے کہ ہنگامہ نشور ہے کیاتری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیزنہ چھین لذت آہ سحر گہی مجھ سےنہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیزدل غمیں کے موافق نہیں ہے موسم گلصدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگیزحدیث بے خبراں ہے ، تو با زمانہ بساززمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستیز٭ ٭ ٭ ٭
Similar Threads:
Bookmarks