90
کب وہ سنتا ہے ، کہانی میری
اور پھر، وہ بھی زبانی میریخلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھدیکھ! خوننابہ فشانی میریکیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار؟مگر آشفتہ بیانی میریہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیالبھول جانا، ہے نشانی میریمتقابل، ہے مقابل میرارک گیا، دیکھ روانی میریگرد بادِ رہِ بیتابی ہوںصرصرِ شوق، ہے بانی میریقدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوںسخت ارزاں ہے ، گرانی میریدہن اس کا جو نہ معلوم ہواکھل گئی ہیچمدانی میریکر دیا ضعف نے عاجز، غالبؔننگِ پیری ہے ، جوانی میری
Similar Threads:
Bookmarks