ممتا
ممتا جب سے
صحرا میں کھوئی ہے
خون میں سوئی ہے
کشکول میں بوئی ہے
سفید پرندہ
خون میں ڈوبا
خنجر دیواروں پر
چاند کی شیشھ کرنوں سے
شبنم قطرے پی کر
سورج جسموں کی
شہلا آنکھوں میں
اساس کے موسم سی کر
کھنڈر ہونٹوں پر
سچ کی موت کا قصہ
حسین کے جیون کی گیتا
وفا کے اشکوں سے
لکھ کر
برس ہوئے
مکت ہوا
Similar Threads:
Bookmarks