ماہ رواں نومبر کے آخری دن عمران خان اپنی احتجاجی تحریک کا فائنل راؤنڈ کھیلنے جارہے ہیں اور اب یہ مرحلہ زیادہ دور نہیں ۔ اس فائنل کا اعلان وہ تقریباً ایک ماہ پہلے ہی کرچکے تھے۔۔۔ لیکن یہاں اس مرحلے پہ سامنے کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ فائنل راؤنڈ واقعی بار آور ثابت ہو سکے گا اور کیا اس سے فی الواقع وہی کایا پلٹ ممکن ہے کہ جس کی وہ اور انکے کارکنان آس لگائے بیٹھےہیں۔۔۔ آئیے یہاں ذرا ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔۔۔تقریبا ًسو دن سے اوپر ہوئے کہ عمران خان کی احتجاجی مہم جاری ہے کہ جسکا ایک اہم جزو کبھی دھرنا ہواکرتا تھا،،، اور جسے مرحوم ہوئے زمانہ گزرا۔۔۔ تاہم اس مردے کو اب بھی زندہ ظاہر کرنے کی غرض سے کبھی کبھی عمران خان اور انکے چند ہمنوا ڈی چوک پہ جمع ہوتے رہتے ہیں۔۔۔ تاہم انکے ہٹتے ہی یہاں پھر ویرانیوں کا ڈیرہ ہوتا ہے ۔۔۔ تو ایسے مرحوم دھرنے کو کہ جسکا چالیسواں در چالیسواں ہو چکا ہے، اس کے بل پہ کسی کے اور وہ بھی حکومت کے کس بل کیسے نکالے جاسکتے ہیں اور حکومت بھی وہ کہ جسکے خاتمے تک ڈٹے رہنے کی یقین دہانی کیلئے تاجدار مدینہ کی قسمیں کھانے اور آتشیں تقاریر کرنے والے طاہرالقادری بھی اپنا بوریہ یہ کہ کر لپیٹ گئے کہ "ابھی نواز حکومت کا خاتمہ اللہ ہی کو منظور نہیں"
قادری صاحب آدمی خاصے سیانے ہیں ، دوماہ کیا ، ایک ہی ماہ میں بھانپ گئے تھے کہ اب یہاں کی دال گلنے والی نہیں اور زیادہ وقت گزرا تو ساجھے کی یہ ہانڈی ہی پھوٹ سکتی ہے ،،، سو وہ ہیکڑی دکھاتے بھی رہے اور پتلی گلی سے نکل لینے کے منصوبے کی نوک پلک بھی سنوارتے رہے اور جونہی انہیں مناسب موقع ہاتھ آیا اس سے انہوں نے فائدہ اٹھا لیا۔۔۔ لیکن اب موصوف پھر وطن عزیز میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں،،، گویا پھر سے امید بندھ چلی ہے ۔۔۔ صاف عیاں ہے کہ ان دنوں انکی واپسی یونہی بے سبب نہیں ہے۔ کہیں سے کچھ ڈوریاں ہلائی گئی ہیں اور انکی یہاں ایک بڑا کردار جھپٹ لینے کی پیاس کم نہیں ہوئی۔۔۔ قرائن سے عیاں ہورہا ہے کہ 30 نومبر کی فائنل کال کے ڈانڈے بھی اسی لندن پلان سے جڑے ہوئے ہیں کہ جو لانگ ماچ اور دھرنے کی قوت سے حکومت و مقننہ کو پلٹ دینے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا اور جسکے ماسٹر مائنڈز نے ان دونوں نالائق بچوں کو خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھانے پہ عاق کردیا تھا ۔۔۔ لیکن چونکہ اس ماسٹر مائنڈ کو اسکے بعد کاٹھی ڈالنے کیلئے حسب دلخواہ کاریگر نہ مل پائے گو یوں چلے ہوئے کارتوس تو بہتیرے دستیاب تھے لہٰذہ لگتا یہ ہے کہ ان برخورداروں سے اپنے بڑے مقاصد پورے کرنے کے لینے پھر سے انہیں جلد سے جلد کام پہ بٹھانا ہے اور نہیں ایکبار پھر تھپکیاں دیکر پرانا ہدف پھر سے دے ڈالا ہے۔۔۔ یہ تو دور رس مگر قوی خدشات ہیں کہ اگر اس ملک میں سکون و آشتی سے چند سال ترقیاتی کام ہوتے رہے، بنیادی مسائل کے حل کیلئے کاوشیں کی جاتی رہیں تو یہ ملک مضبوط و مستحکم ہوکر ان عالمی چوہدریوں کو اور انکے ملکی ایجنٹوں کو آنکھیں دکھانے کے قابل ہو جائیگا اور اس خطے سے متعلق انکے عزائم خاک میں مل کر رہ جائینگے،،، تو ایسا بھلا ہونے ہی کیوں دیا جائے ،،، یہ نوبت آئے ہی کیوں ،،، میاں نواز شریف کی حکومت کی کئی باتیں قابل اعتراض ہوسکتی ہیں (جیسے مریم نواز کو یوتھ لون اسکیم کی سربراہی سونپنا، بدنام زمانہ زاہد حامد کوکابینہ کا حصہ بناناوغیرہ وغیرہ۔۔۔ ) ، لیکن انکے اور انکے برادر خورد کے کام کرنے کی لگن اور وافر ہٹیلے پن پہ کم ہی لوگوں کو شبہ ہے البتہ انکی ترجیحات پہ اتفاق پایا جانا لازمی نہیں ، ان پر بہتوں کو تحفظات ضرور ہوسکتے ہیں جیسے ہمیں میٹرو بس اسکیم پہ تھے اور اس سے قبل سستی روٹی کے تندوروں پہ رہے ہیں ۔۔۔
جو دور رس امکانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن اس سارے سیاسی و انتظامی خلفشار برپا کرنے اور یوں حکومت کو چلتا کردینے کے پیچھے جو فوری مقاصد برہنہ سچ بنکر سامنے آرہے ہیں وہ یہ ہیں کہ اگلے برس افغانستان سے نیٹو افواج کا پہلے سے طے شدہ انخلاء شروع ہوجائے گا اور انکی ہرطرح کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کیلئے یہاں کےسے گزرنے والے 1800 میل لمبے زمینی بلکہ زیادہ تر میدانی راستے سےہر طرح کے خطرات کو ختم کرڈالنے کیلئے ایک برخوردار حکومت کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے،،، عمران خان ایک ضدی و سرکش قسم کی شناخت رکھتے ہیں لہٰذہ انہیں کوئی بڑا منصب دیکر کوئی اپنا کھیل خود ہی بکھیڑا کرلے یہ ممکن ہی نہیں، لیکن انکی چند صفات ایسی ہیں کہ انکے بل پہ وہ عوام کو راغب کرنے کی ناقابل نظرانداز صلاحیت کے حامل ہیں چونکہ کرکٹ کی دنیا کا گلیمر، شوکت خانم ہسپتال کی کامیاب کارکردگی ،مالی معاملات میں صاف ستھرا ہونا اورخاصا فوٹو جینک ہونا انکے اندر وہ کرشماتی کشش پیدا کیئے ہوئے ہیں کہ جسکے بل پہ ان سے حکومت مخالف لوگوں کی تعداد بڑھانے اور انہیں مجتمع رکھ کر ایک بڑی فورس بنا دینے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن میں اس سے آگے انکا کردار نہیں دیکھتا۔
بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ احتجاجی لہر کو موثر قوت بنادینے والا کام کردینے کے بعد انکی ضرورت باقی نہیں رہے گی بلکہ اپنے وکھرے پن کے باعث وہ چیونٹیوں بھرا کباب سمجھے جانے لگیں گے۔۔۔ اور اس مرحلے پہ اچانک آئینی کی دفعہ 62 اور 63 کے موثر نفاذ کیلئے شور بڑھادیا جائے گا اور میرا گمان ہے کہ ان میں سب سے نمایاں آواز خود طاہر القادری کی ہوگی اور پاکیزہ کردار کے تقاضوں کی وسیع تشریح کی راہ میں سیتا وائٹ کیس پہ دیا جانے والا امریکی عدالت کا فیصلہ یکایک سد سکندری بن جائے گا یا بنادیا جائے گا۔۔۔ اور یوں عمران خان کو صرف پارٹی کا بابا بننے پہ ہی قناعت کرنا ہوگی۔
لگتا ہے کہ اب عمران کو اپنے سر پہ لٹکتی اس تلوار کے خطرے کا شدت سے ادراک ہوگیا ہے اسلئے وہ اتنےزبردست بھونچال کے متمنی ہیں کہ جسکی لپیٹ میں آکر یہ تلوار ہی نابود ہوجائے اور جسکی گرد جب تھمےاور عوام آنکھیں مل کر جب تخت اقتدار کی جانب دیکھیں تو انہیں وہاں براجمان پائیں،،، لیکن سوال پھر یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب پھر ہوگا کیسے۔۔۔ انکی انصافی ترکش کے زیادہ تر تیر تو چل ہی چکے۔۔۔ یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ 30 نومبر کے مبینہ فائنل راؤنڈ میں کسی بھی حد سے گزر جانا عمران خان کی حکمت عملی ہو نا ہو ان لوگوں کی تو ضرور ہوگی کہ جو انہیں بڑھاوا دے رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مبینہ فائنل راؤنڈ سے وہ نتائج کیسے نکل سکیں گے کہ جو پہلے بھی نہ نکل سکے جبکہ جذبے بھی خاصے جواں جواں سے تھے، ہمک اور تڑپ بھی نئی نئی سی تھی ، حاضرین کی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں تو بیحد کم بھی نا تھی اور ناکامیوں کی بڑی گٹھری بھی پیٹھ پہ یوں نہ لدی ہوئی تھی۔
کیا ابکے کسی بڑی خونریزی سے کامیابی کا ست کشید کیا جائیگا یا پھر طاقت کے ریاستی مراکز میں سے کچھ لوگ انکی مٹھی میں آکر الہ دین کا جن جیسا کوئی رول پلے کرنے کیلئے بیتاب ہوچکے ہیں۔۔۔ یا پھر مشرقی سرحدوں سے کوئی باقاعدہ منصوبہ بند جارحیت ہوگی جو انکی ایک دھمکی پہ رکوادی جائیگی، یوں وہ ہیرو بناکر اقتدار کی کرسی تک پہنچادیئے جائینگے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ انکی حلیف جماعت اسلامی نے یہ نکتہ بھانپ لیا ہے اور اسی لیئے وہ اب انکے 30 نومبرکے اعلانات سے قطعی لا تعلق ہو گئی ہے۔۔۔
ہماری دانست میں تو اس بار بھی حکومت جانے والی نہیں بشرطیکہ وہ خود کلہاڑی پہ اپنا پیر نا دے مارے۔۔۔ خان کو یہ چاہئے کہ اپنی ضدیں ترک کرکے کسی ناکسی طور انتخابی اصلاحات ، مڈٹرم الیکشن اور بدلیاتی الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنوائیں اور اس دوران اپنے کارکنان کی تربیت پہ خصوصی توجہ دیں۔۔۔ سامنے کے راستے سے انہیں یہی مل سکتا ہے ۔۔۔ اور اب پچھواڑے سے انہیں کچھ بھی نا مل سکےگا،،، مزید یہ کہ عمران یہ بھی نا بھولیں کہ ابکے حد سے گزر جانے کی ساری کی ساری منفی قیمت صرف پی ٹی آئی کے مایوس چیئرمین کو ہی چکانی ہوگی جو کہ انکے سیاسی کیریئر کے اختتام پہ بھی منتج ہوسکتی ہےجبکہ کچھ رزلٹ نکل آنے پہ وکٹری اسٹینڈ پہ کھڑے ہونے کی سرخروئی صرف طاہرالقادری اور شاہ محمود قریشی کے ہاتھ لگے گی، آخر انکے مصنوعی لہجوں میں گھن گھرج یونہی اچانک بے وجہ تو نہیں بڑھ گئی ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks