ہم دنیا دار لوگ ہیں، ہم اللہ والوں کو جاننے اور پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے ایسے محیر العقول واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ہمارے دلوں میں یہ خیال نہیں آتا کہ خلق خدا کیلئے آسانیاں پیدا کرنیوالے یہ کتنے نیک اور برگزیدہ لوگ ہیں۔ یہ اللہ والے ہمارے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کی مخلوق کو راضی کرنے اور دل جیتنے میں مصروف رہتے ہیں۔ خلق خدا کی خدمت کرنا ان کا وظیفہ ہوتا ہے۔ ہم چونکہ دنیا دار قسم کے لوگ ہیں۔ خوشحال زندگی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی تمنائیں اپنے دلوں میں بسائے رکھتے ہیں اس لئے ان دنیاوی خواہشات اور تمنائوں نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اس لئے ہم اپنے ارد گرد موجود اللہ کے نیک بندوں کو نہیں پہچان سکتے۔ہماری سیاسی تاریخ ان بزرگوں سے بھری پڑی ہے جن کے آبائو اجداد پہلے ہندوستان میں رہتے تھے اور پھر انہوں نے اپنا گھر بار خدمت خلق اور انسان دوستی کیلئے چھوڑا۔ ہمارے ہاں سلسلہ شریفیہ کے سب سے عظیم صوفی بزرگ میاں نواز شریف ہیں۔ دنیا داری سے میاں نواز شریف کی طبیعت نفور رہی۔ صرف خلق خدا کی محبت اور خدمت کیلئے وزیر اعظم کا عہدہ قبول فرمایا۔ جنرل مشرف کے آنے سے انہیں سعودی عرب میں چلہ کاٹنے کاموقع ملا۔ عمرے اور حج کی سعادتیں نصیب ہوئیں۔ یاد الٰہی میں مستغرق بھی رہتے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ملک و قوم میں آمریت اور غریب لوگوں کی غربت اور افلاس پر دل ہی دل میں کڑھتے بھی رہے۔سلسلہ شریفیہ کے دوسرے عظیم بزرگ میاں شہباز شریف ہیں یہ بزرگ زبانی تقریروں سے زیادہ اپنے عملی کارناموں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے ہیں۔ غریبوں کے حالات دیکھ کر جلسوں میں اکثر آب دیدہ ہو جاتے ہیں میاں شہباز شریف عظیم صوفی بزرگ میاں نواز شریف ہی کے ہاتھ پر بیعت ہیں یہ فنافی المرشد ہیں۔ بڑے بڑے بھائی کہتے ان کا منہ سوکھتا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے میاں شہباز شریف صاحب کو ایسا دل عنایت فرمایا کہ اس دل میں طلبہ کیلئے لیپ ٹاپ اور بے روزگاروں کیلئے آسان قسطوں پر کیری ڈبوں کے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں۔ ان کی محبت طلبہ کے دلوں میں لیپ ٹاپ کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کسی بھی علاقے سے دکھی لوگ انکے آستانے پر آ جائیں تو لنگر پانی کھلا کر آنکھیں بند کئے آسمان کی طرف سر مبارک اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں۔ دکھی لوگو! کوئی مسئلہ یا کوئی خدمت بتائو پھر خود ہی کہتے ہیں تمہیں کتنے پلوں، کتنی میٹروبسوں کی ضرورت ہے؟ میاں شہباز شریف کے بڑے بھائی عظیم صوفی بزرگ میاں نواز شریف نے بڑے بڑے سخت چلے کاٹے ہیں اور سخت عبادتوں، ریاضتوں اور کڑے مجاہدوں کے ذریعے تزکیہ نفس کی دولت پائی ہے۔ یہ انہی کے فیضان نظر ہے کہ چھوٹے صوفی بزرگ میاں شہباز شریف کا دل بھی نور حق سے منور ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس ٹوٹی پھوٹی سڑک کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں اس کو یا تو رنگ روڈ بنا کر چھوڑتے ہیں یا موٹروے۔ یہ صوفی بزرگ وطن عزیز کے ہر فرد کو صراط مستقیم پر گام زن دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے یہ دلوں کی سڑکوں کو بھی سیدھا دیکھنے کے متمنی ہیں۔آشیانہ سکیمیں اور دانش سکول انہی کی ذات مبارکہ کی کرامات ہیں۔ گزشتہ دنوں سیلاب نے تباہی مچائی تو ہمارے یہ صوفی بزرگ اپنا آرام تج کر سیلاب زدگان کے زخموں پر مرہم رکھنے ہیلی کاپٹروں پر نکل کھڑے ہوئے۔ جن لوگوں کے مکانات تباہ ہوئے انہیں مکانات کی تعمیر کیلئے بھاری رقوم کے چیک عنایت فرمائے۔ جن کی فصلیں برباد ہوئیں۔ انہیں ان کا معاوضہ ادا کیا۔ انہی دنوں سلسلہ عمرانیہ کا سونامی بھی آگیا۔ سلسلہ عمرانیہ کے مریدین سلسلہ شریفیہ کے صوفی بزرگوں سے کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو گئے اور ان بزرگوں کو اپنی زبانوں کے زخم لگانے لگے۔ سلسلہ شریفیہ کے صوفی بزرگ اور انکے مریدین اکثر یہ کہتے سنے گئے؎
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
اب تھوڑا سا تذکرہ سلسلہ شریفیہ کے ان مریدین کا ہو جائے جو سلسلہ عمرانیہ کے فلسفے کا منہ توڑ یا جبڑا توڑ جواب دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان میں پرویز رشید مدظلہ ہیں۔ یہ بھی فنافی المرشد ہیں۔ یہ خیر جذباتی انداز میں رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور ایسے ایسے فقرے کہتے ہیں کہ ان سے پتا چلتا ہے کہ جیسے یہ کالا باغ ڈیم جیسا کوئی عظیم پراجیکٹ ہے جس سے عوام کے شب و زر روشن ہو جائینگے۔ گزشتہ دنوں حضرت پرویز رشید نے ایک ٹی وی ڈاکومنٹری کے ذریعے عمران خان صاحب کی آبائی زمینیں اور انکے گھر بھی دکھا دیئے۔ حضرت پرویز رشید صاحب نے عمران خان کو ایک بادشاہ ثابت کیا۔ حتی کہ ان کے جوتوں پر لگے ایک بکل کی قیمت بھی بتا دی۔ حضرت صاحب نے کہا کہ عمران خان پروٹوکول کیخلاف تقریریں کرتے ہیں اور خود پروٹوکول لیتے ہیں پرویز رشید صاحب وزیر اطلاعات ہیں یہ عہدہ عموماً ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جن سے سلطنت کا کوئی بڑا کام ہو نہیں پاتا یا ان سے کسی کام کی امید نہیں ہوتی۔خواجہ سعد رفیق سلسلہ شریفیہ کی درگاہ کے نامور مرید ہیں۔ جس طرح کسی زمانے میں صوفی بزرگ مسافروں کا بہت خیال رکھتے تھے اسی طرح خواجہ سعد رفیق صاحب کے سپرد بھی ریلوے کا محکمہ کیا گیا ہے بڑے بزرگوں کی طرح خواجہ صاحب عمران خان کو بتاتے رہتے ہیں کہ سیاست کا سفر بہت طویل ہوتا ہے اس لئے اس میں حوصلے، بردباری اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے خواجہ صاحب عمران خان کی اخلاقی تربیت کرنے پر مامور ہیں۔سلسلہ شریفیہ کے وزیر وزیر دفاع، وزیر پانی و بجلی، وزیر خزانہ اور وزیر ریلوے اپنی اپنی وزارتوں کو بھول کر عمران خان اور سلسلہ عمرانیہ کے مریدین کی تربیت کرنے میں مصروف ہیں۔ بڑے بزرگوں سے التماس ہے کہ ان وزراء کو اپنی اپنی وزارتوں میں دلچسپی لینے کو کہا جائے اور عمران خان کی تربیت کیلئے کوئی الگ سے وزارت تشکیل دی جائے۔ ہمارے بڑے بزرگ میاں نواز شریف اکثر تبلیغی دوروں پر رہتے ہیں۔ انہیں چاہئیے کہ کوئی ایسا وزیر اعظم نامزد کر دیا جائے جو انکی غیر موجودگی میں ہماری روحانی تربیت کر سکے
Similar Threads:
Bookmarks