Zabardast intekhab !!
Printable View
Zabardast intekhab !!
ﺗﻔﺴﯿﺮِ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﮔﺮﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮭﻞ ﺳﮑﯿﮟ
ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻠﻔﺸﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل..
زیست مکتب ہے امتحان نہیں...
خواب، ماضی..!! سراب، مستقبل..!!
اور " جو ہے" وہ میری جان"نہیں..."
کوئی دیکھے تو موت سے بہتر..
زیست کا کوئی پاسبان نہیں....
Nice one
ﺳﻨﻮ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﺳﻔﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﻓﺮﻗﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﮐﯿﺴﺎ
ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺁﻧﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﺎ
ﺷﻌﻠﮧ ﺑﮭﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﻮ
ﺗﻤﺪﻥ ﮐﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﺟﻼ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﻈﺮ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ
ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ..
ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﺳﺐ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﮐﯽ
ﻣﺤﺾ ﺑﮑﻮﺍﺱ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ
ﺑﮍﺍ ﺳﭻ ﮨﮯﮐﮧ ﯾﮧ
ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ..
ﺑﮍﯼ ﺑﺪﺫﺍﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺎرﯾﮕﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ..!!
ﺁﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﺳﮯ
ﻟﻔﻆ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻭﺭﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ..!!
ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺎ ﮨﻨﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ..!!
ﻏﻢ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺘﯿﺎﮞ ﺍُﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ..
ﮐﯿﺴﮯ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ...!!
ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ
ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮈﻭﺏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ...
ﺟﻮ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﻻﺋﮯ....
ﺑُﺠﮭﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﮮ ﯾﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﺑﮩﺖ ﮨَﻮﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ، ﭼﺮﺍﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣِﺮﯼ ﺷِﮑﺴﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﮯ ﻣُﻀﻤَﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﭘُﻮﭼﮫ
ﻋﺪُﻭ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻝ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩُﮬﻮﺍﮞ ﺩﮬﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺎﻧﺲ ﮨﯽ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺍِﺑﺘﺪﺍ ﮐﯽ تهی
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں...
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے
ہر موج کے دامن میں بیدار جو دریا ہے
اک ریت کے ذرے میں آباد جو صحرا ہے
کیا اُس کی وضاحت ہے کیا اس کا تقاضا ہے
جو سامنے آتا ہے منظر ہے کہ پردہ ہے
بے انت سوالوں کی زنجیر ہے یہ دنیا
اُس عکس کے سایوں کی تصویر ہے یہ دنیا
جس عکس کے جلوے کو ہر آنکھ ترستی ہے
ہے ایک گھٹا ایسی ، کُھلتی نہ برستی ہے
...
کیوں رنگ نہیں رُکتے ، کیوں بات نہیں چلتی
کیوں چاند نہیں بھُجتا کیوں رات نہیں جلتی
موسم کی صدا سن کر کیوں شاخ لرزتی ہے
کیوں اوس کف ِ گُل پر پل بھر کو ٹھہرتی ہے
کیوں خواب بھٹکتے ہیں کیوں آس بکھرتی ہے
اس ایک تسلسل سے کیوں وقت نہیں تھکتا
بس ایک تحیر میں کیوں عمر گزرتی ہے
کسی کے دکه پر ملال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا..
وفاوں کو لازوال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
جو فاصلے تهے انہیں مٹانا اگرچہ دونوں ہی چاہتے تهے..
مگر تعلق بحال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
کسی بهی دکه پر صدائیں سن کر نہ وہ ہی رویا نہ میں ہی تڑپا..
کہ روح کو مالامال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
دعا کے روشن چراغ اپنی ہتهیلی پہ جلائے ہم نے....
خدا سے لیکن سوال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا....
اس دل میں سلامت ہے اب تک...
وہ شوخئی لب وہ حرف وفا
وہ نقش قدم وہ عکس حنا..
سو بارجسے چوما ہم نے
سو بار پرستش کی جس کی..
اس دل میں سلامت ہے اب تک..
وہ گرد الم وہ دیدہ نم
ہم جس میں چهپا کر رکهتے تهے..
تصویر بکهرتی یادوں کی
زنجیر پگهلتے وعدوں کی...
پونجی ناکام ارادوں کی
اے تیز ہوا ناراض نہ ہو...
اس دل میں سلامت ہے اب تک..
سامان بچهڑتی ساعت کا...
کچه ٹکڑے گرم دوپہروں کے
کچه ریزے نرم سوالوں کے
کچه در انمول خیالوں کے
اک سچا روپ حقیقت کا...
اک جهوٹا لفظ محبت کا
ہم عجب مسافر دشت تهے کہ چلے تو چلتے چلے گئے
کسی آب و جو کی صدا پہ بهی کہیں راستے میں رکے نہیں
کئی اور اہل طلب ملے مجهے راہ شوق میں ہم قدم
جنہیں کر رہا تها تلاش میں، وہی لوگ مجه کو ملے نہیں
وہی تو فیصلہ کرتا ہے پتهر کے مقدر کا....
کسے ٹهوکر میں رکهنا ہے...کسے اسود بنانا ہے
نہیں محتاج، اہل فن کسی در کی گدائی کے
یہ انسان ہیں وہی جن کے ارادے ساته چلتے ہیں
ضیاء دیتے ہیں دانشور ، بصیرت زمانے کو
ظلمت میں یہ روشن ستارے ساته چلتے ہیں
ہمارا دست ہمت ہی، ہمارے کام آئے گا
سفر میں کب تلک آخر سہارے ساته چلتے ہیں
مزہ تو تب ہے کہ ہار کے بهی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت جانا کمال تهوڑی ہے
لگانا پڑتی ہے ڈبکی ابهرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تهوڑی ہے
اے دوست یہاں ویرانوں کو گلزار سمجهنا پڑتا ہے
کچه اونچی نیچی راہوں کو ہموار سمجهنا پڑتا ہے
احساس کے الٹے پاوں سے جب چلتے چلتے تهک جائیں
تو راہگزر کو اے راہی..!! دیوار سمجهنا پڑتا ہے
مجروح معیشت کے ہاتهوں انسان کا اب یہ عالم ہے
ہر زخم لگانے والے کو غمخوار سمجهنا پڑتا ہے
Beauti ful collection
بہت خوب
اچھا انتخاب۔۔۔۔۔۔
zabardast
عجب سی بات ہے کہ ایک دنیا
میرے زیر اثر ہے، وہ نہیں ہے
میرے هاتھ سے تیرے هاتھ تک
وه جو هاتھ بھر کا تھا فاصله
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے اسے کاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا
وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے
یہ عکس داغ شکست پیماں وہ رنگ زخم خلوص یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے؟؟
یہ سنگریزے عداوتوں کے وہ آبگینے سخاوتوں کے
دل مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے
بچھڑنے والا بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
ترے لئے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے
میری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے؟؟
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
ابھی محبت کا اسم اعظم لبوں پہ رہنے دے جان محسن!
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے
خوشــبو کسی تشہیر کی محتاج نہیں ہوتی
سچا ہوں ــ مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
sahi
ﮬﻢ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺧﺮﯾﺪﺗﮯ ﮐﯿﺴﮯ.......؟؟؟؟
ﮬﻤﺎﺭﯼ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﮑﮯ ﺗﮭﮯ
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اُجالا ہے
مُجھے کیا دبا سکے گا توظلمتوں کا پالاہے
مُجھے فکر امن عالم، تُجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں، تُو غروب ہونے والا ہے
گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجڑے ہوےّ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے
یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوئے خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے
خواہش کے ، طمانیتِ احساس کے پنچھی
کچھ روز میرے گھر بسر کیوں نہیں کرتے
صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زُعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے
یہ لوگ مسلسل ہیں جو اک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے
کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے
اناؤں،نفرتوں،خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں
محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں
فقط باتیں اندھیروں کی ,محض قصّے اجالوں کے
چراغ آرزو لے کر نہ تم نکلے نہ ہم نکلے