Originally Posted by intelligent086 ناروا ہے سخن شکایت کا وہ نہیں تھا میری طبیعت کا دشت میں شہر ہو گئے آباد اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا وقت ہے اور کوئی کام نہیں بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا بس اگر تذکرہ کروں تو کروں کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو تو نہیں تھا ہماری قیمت کا صبح سے شام تک میری دُنیا ایک منظر ہے اس کی رخصت کا کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی خواب تھا جاگنے کی حالت کا کہتے ہیں انتہائے عشق جسے اک فقط کھیل ہے مروت کا آ گئی درمیان روح کی بات ذکر تھا جسم کی ضرورت کا زندگی کی غزل تمام ہوئی قافیہ رہ گیا محبت کا Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin THanks For Sharing ...... Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks