اداسی کی
کوئی تو آخری حد ہو
کہ جس کے بعد
ممکن نہ رہے کچھ اور غم سہنا
یا پھر یوں ہو کہ
غم سہنے کی عادت اس طرح کچھ ہو
کہ سہہ کر بھی
نہ جنبش ابروؤں میں اور نہ ماتھے پہ بل آۓ
شکستہ , ٹوٹتے اعصاب پر طاری تھکن نہ ہو
لبوں سے, بے ارادہ 'آہ' نہ نکلے , نہ دل ڈوبے
کبھی ہلکی نمی رخسار پر, آنکھوں سے نہ اترے
لبوں کو سی لیا جاۓ
نمی کو پی لیا جاۓ
چبھن میں اور تھکن میں
خامشی سے جی لیا جاۓ
اداسی کی...کوئی تو آخری حد ہو
Bookmarks