یک دفعہ کا ذکر ہے ایک لڑکا تھا جس کا نام مکاٹو تھا۔ وہ ایک یتیم بچہ تھا۔ اس کے ماں باپ اس کے بچپن ہی میں مرگئے تھے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے کے لئے نہ کوئی بہن بھائی تھے نہ رشتہ دار اور دوست۔ اسے اپنے لئے آپ ہی کمانا پڑتا تھا۔ اس نے ہر طرح کے کام کئے۔ کبھی وہ روزی کمانے کے لئے لوگوں کا بھاری سامان ڈھوتا، کبھی جنگل صاف کرتا اور کبھی جانوروں کو راتب کھلاتا۔ اس نے ہر کام کیا۔ وہ کبھی نچلا نہیں بیٹھا۔ وہ کام چور بھی نہیں تھا۔ ہر کام دل لگا کر کرتا۔ اگرچہ سخت محنت مزدوری کے بعد اسے تھوڑی سی رقم ملتی، وہ پھر بھی خوش رہتا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر میں کام نہیں کروں گا تو بھوکوں مروں گا۔ وہ جو کام بھی کرتا سوچ سمجھ کر اور محنت سے کرتا۔ وہ بہت خوش مزاج اور ہنس مکھ بھی تھا۔ چنانچہ وہ جس کے ہاں بھی کام کرتا، وہ اس کی تعریف کرتا۔
ایک سہانی شام وہ لکڑی کا ایک بہت بڑا تنا کاٹ کر فارغ ہوا، تو ذرا سانس لینے کے لئے بیٹھ گیا۔ یوں بیٹھے بیٹھے وہ سوچنے لگا کہ مجھے آئندہ کیا کرنا چاہئے۔ وہ انجانے دور دراز علاقوں میں جاکر اپنی قسمت آزمانا چاہتا تھا، کیونکہ اسے نئے نئے کام کرنے کا بہت شوق تھا۔
اس کے مالک نے آکر پوچھا ”میرے بچے! تم اتنے دھیان سے کیا سوچ رہے ہو؟“
مکاٹو نے شمال مشرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ”میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ میں نے سنا ہے وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے اور وہاں کے لوگ بہت نیک اور رحم دل ہیں۔ کاش میں یہ علاقہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا!“ یہ کہہ کر اس کی آنکھیں شوق سے چمک اُٹھیں۔
مالک بولا ”جس جگہ تم جانا چاہتے ہو اس کا نام سوکھو تھائی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سوکھو تھائی کا بادشاہ پرا روانگ بہت ہی رحم دل ہے۔ اگر تم وہاں پہنچ سکو تو شاید تمہاری قسمت چمک اُٹھے“۔
کچھ دنوں بعد مکاٹو نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا گاﺅں چھوڑا اور دنیا کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ وہ مزے لے لے کر نئے اور دلچسپ نظارے دیکھتا، راستے میں لوگوں سے ملتا آگے ہی بڑھتا رہا۔ ایک مہینے کے سفر کے بعد وہ سوکھو تھائی کی سلطنت کی سرحد پر ایک گاﺅں میں پہنچ گیا۔
مکاٹو کو ایک بوڑھی عورت دکھائی دی جو پانی کا ایک بہت بڑا گھڑا سر پر رکھے جارہی تھی۔ مکاٹو نے اس سے کہا ”کیا مجھے ذرا سا پانی پینے کو مل جائے گا؟ مجھے سخت پیاس لگی ہے“۔
بوڑھی عورت نے ایک چھوٹے سے پیالے میں مکاٹو کو پانی دیا، پھر اُس سے پوچھا ”تم کہاں سے آئے ہو؟ تم بالکل اکیلے کیوں ہو؟ یوں لگتا ہے جیسے تم بہت دور سے آئے ہو“۔
مکاٹو نے پانی پی کر کہا ”بہت بہت شکریہ!“
بوڑھی عورت نے پھر پوچھا ”تمہارے ماں باپ کون ہیں؟ کیا تمہارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے؟“
مکاٹو نے بتایا ”نہ میری ماں ہے اور نہ باپ۔ میں مون شہر سے آیا ہوں“۔
”او میرے خدا! کیا تم واقعی مون شہر سے آئے ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ نہ تم اکیلے سفر کررہے ہو! تم تو اتنے چھوٹے ہو!“
مکاٹو بولا ”میں سوکھو تھائی کے پراروانگ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت رحم دل بادشاہ ہیں“۔
بوڑھی عورت نے کہا ”تم بہت ہمت اور پکے ارادے والے لگتے ہو! آﺅ میرے ساتھ۔ کسی کو کیا پتہ، شاید تم پرا روانگ کو دیکھ ہی لو“۔
مکاٹو خوشی خوشی بڑھیا کے ساتھ چلا گیا۔ اس نے سوچا اگر میں اس رحم دل بڑھیا کا کام کروں گا تو مجھے سونے کو جگہ، کھانے کو روٹی تو مل ہی جائے گی اور شاید کسی نہ کسی دن قسمت نے ساتھ دیا تو بادشاہ کو دیکھنا بھی نصیب ہوجائے۔
بڑھیا کا شوہر، پراروانگ کا ایک مہاوت تھا۔ وہ بادشاہ کے دوسرے مہاوتوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کے سیکڑوں ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرتا۔ مکاٹو اس کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ وہ ہاتھیوں کے لئے راتب لانے اور ہاتھیوں کے تھان کی صفائی ستھرائی میں اس کی مدد کرتا۔ وہ بہت محنت سے اور دل لگا کر کام کرتا۔ مہاوت اور اس کی بیوی دونوں ہی اس کو بہت پیار کرتے تھے۔
ایک دن آسمان بالکل صاف تھا اور موسم بہت ہی سہانا تھا۔ نہ جانے کیو ں مکاٹو کو یوں لگ رہا تھا کہ آج کا دن بہت نیک ہے۔ جب وہ ہاتھیوں کے تھانوں کی صفائی کررہا تھا تو ایک لمبے قد کا آدمی اندر آیا۔ اس نے بہت ہی شاندار لباس پہن رکھا تھا اور اس کے ساتھ کئی نوکر چاکر تھے۔ یہ پراروانگ خود تھا۔ مکاٹو نے فوراً ہاتھ جوڑ کر اسے جھک کر سلام کیا۔ اس وقت اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
بڑھیا کا شوہر بھی وہاں موجود تھا، بادشاہ نے اس سے پوچھا ”یہ لڑکا کہاں سے آیا ہے؟“
مہاوت نے ادب سے جھک کر بتایا ”یہ لڑکا مون شہر سے آیا ہے۔ اس نے آپ کی تعریف سنی تھی۔ یہ آپ کو دیکھنے کے شوق میں اتنا راستہ پیدل چل کر یہاں پہنچا ہے“۔
”اس کی عمر کیا ہوگی؟“
”بادشاہ سلامت! بارہ سال“۔
بادشاہ نے خوش ہوکر کہا ”خوبصورت اور محنتی لڑکا ہے۔ تم اس کا اچھی طرح خیال رکھنا“۔
جیسے ہی بادشاہ باہر گیا، مکاٹو نے زمین پر ایک کوڑی پڑی دیکھی۔ اس نے فوراً وہ کوڑی اُٹھائی اور بھاگ کر بادشاہ کی خدمت میں جا پیش کی۔ مگر بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا ”یہ تم رکھ لو“۔
مکاٹو نے سوچا ”آہا۔ مزا آگیا۔ بادشاہ نے مجھے ایک کوڑی دی ہے“۔
اس زمانے میں سوکھو تھائی کے لوگ کوڑی کو سکے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگرچہ ایک کوڑی کی ذرا سی حیثیت تھی، پھر بھی مکاٹو تو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا، کیونکہ یہ تو بادشاہ کا دیا ہوا تحفہ تھا۔ بہت عرصے تک اسے کوئی ایسی تدبیر نہ سوجھی جس سے وہ اس ایک کوڑی سے زیادہ سے زیادہ کما سکتا۔
ایک دن بازار میں وہ پودوں کے بیجوں کی دکان کے سامنے سے گزرا۔ اس نے دکان پر نگاہ ڈالی۔ وہاں اس نے ایک ٹوکری دیکھی جو سلاد کے بیجوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے سوچا ”سلاد! ایسے چھوٹے چھوٹے پودے تو میں بھی اُگا سکتا ہوں“۔ پھر اس نے دکان پر بیٹھی ہوئی ہنس مکھ عورت سے پوچھا۔
”کیا میں سلاد کے بیج خرید سکتا ہوں؟“
اس عورت نے پوچھا ”ہاں، بیٹا! تمہیں کتنے بیج چاہئیں؟“
مکاٹو بولا ”میرے پاس تو ایک ہی کوڑی ہے“۔
عورت نے ہنسے ہوئے کہا ”بس ایک ہی کوڑی! اس سے تو کچھ بھی نہیں خریدا جاسکتا۔ میں تو اتنے بیج تول بھی نہیں سکتی!“
مکاٹو نے بہت شوق سے کہا ”دیکھیے میں اپنی انگلی بیجوں کے اس ڈھیر میں ڈالتا ہوں اور جتنے بیج بھی انگلی سے لگ جائیں، بس وہ آپ اس کوڑی کے بدلے مجھے دے دیجئے گا“۔
عورت مکاٹو کی یہ تجویز سُن کر بہت ہنسی اور بولی ”اچھا چلو یوں ہی سہی۔ اپنی انگلی بیجوں میں ڈالو!“
مکاٹو نے کوڑی عورت کو دی۔ پھر اپنی انگلی منہ میں ڈال کر گیلی کی اور بیجوں کے ڈھیر میں ڈال دی۔ جب اس نے اپنی بھیگی ہوئی انگلی ڈھیر میں سے باہر نکالی تو ساری انگلی پر بیج ہی بیج تھے۔
مکاٹو نے بہت حفاظت کے ساتھ سارے بیج اُتار کر اپنی ہتھیلی پر رکھے اور مٹھی کو مضبوطی کے ساتھ بند کرکے وہ خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔
اب جو اس کے پاس بیج آگئے تو اس نے فوراً زمین میں گوڈی کی اور بیج بو دیئے۔ ہر روز صبح وہ کیاری کو پانی دیتا۔ چند ہی دنوں میں ننھے ننھے پودے نکل آئے۔ پھر مکاٹو نے کچھ اور زمین صاف کی اور کچھ اور بیج بو دیئے۔ یوں چند ہی دنوں میں پورا کچن گارڈن تیار کرلیا۔ وہ اپنے ننھے منے ہرے بھرے کھیت کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔
مکاٹو نے سوچا ”اس خوبصورت سلاد کے کچھ گچھے بادشاہ کو بھی پیش کردوں تو کتنا اچھا ہو!“
ایک دن پھر بادشاہ ہاتھیوں کے تھانوں کے پاس سے گزرا۔ مکاٹو بھی موقع کے انتظار میں تھا۔ وہ اپنے گھٹنوں پر جھکا اور تازہ تازہ سلاد کے سب سے بڑے گچھے بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے۔
بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا ”یہ تمہیں کہاں سے ملی؟“
مکاٹو نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا ”بادشاہ سلامت! وہ کوڑی جو آپ نے مجھے بخشی تھی، میں نے اس سے بیج خریدے اور یہ سلاد اُگائی“۔
بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا ”مگر کیسے؟ ایک کوڑی میں یہ سب کیسے ممکن ہوا؟“
مکاٹو نے بادشاہ کو ساری کہانی سنادی۔ بادشاہ کو اس کی عقل مندی اور محنت بہت پسند آئی اور اس نے مکاٹو کو محل میں نوکر رکھ لیا۔
کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ مکاٹو اب ایک تندرست، خوبصورت لمبا جوان آدمی بن چکا تھا۔ بادشاہ جو کام بھی اسے سونپتا وہ پوری محنت اور سلیقے سے کرتا۔ بادشاہ اس پر بھروسہ کرنے لگا۔ اسے بڑے سے بڑا عہدہ ملتا گیا، یہاں تک کہ اسے ”کھن وانگ“ کا خطاب ملا، جس کا مطلب تھا کہ وہ بادشاہ کے دربار میں سب سے اہم آدمی ہے۔ اور بالآخر بادشاہ نے اسے مون شہر کا حاکم بھی بنادیا۔
مون شہر کا وہی یتیم بچہ جس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا اپنی محنت اور لیاقت سے وہاں کا بادشاہ بن گیا۔
Similar Threads:
Bookmarks