اپنے رویوں میں برداشت پیدا کریں

کہتے ہیں سیاست کا اصل میدان گلی ‘ محلوں‘ تھڑوں‘چوراہوں‘ فٹ پاتوں اور بس ویگنوں یا میٹرو بس میں ہی سجتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ چند روز قبل دوران سفر دیکھنے کوملا۔ دوران سفر کچھ نوجوان موبائل فون پر مشغول تھے‘ تو کچھ ادھیڑ عمر لوگ نیم سوئے ہوئے تھے۔ کچھ سفر ختم ہونے کے انتظار میں جاگ رہے تھے کہ کب اپنی منزل پر پہنچیں گے۔ غرض یہ کہ سفر بڑی خاموشی سے طے ہو رہاتھا کہ اچانک ایک شخص نے دوسرے سے سرگوشی کرتے ہوئے ‘ مہنگائی کا رونا‘ رونا شروع کر دیا۔اس کا کیا رونا تھا کہ جیسے ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہی بیٹھا تھا‘ بس موقعے کی تاک میں تھا۔ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان ( جو بے روزگار لگ رہا تھا)نے بے روزگاری کے حوالے سے ایک لمبی چوڑی تقریر ہی کر ڈالی۔کوئی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا راگ الاپ رہا تھا تو کوئی سی این جی کے کم ملنے پر موجودہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔غرض یہ کہ کوچ میں ہر بندہ ہی اپنی اپنی ہانپ رہا تھا‘ کسی کی بات کی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی۔
آخری معرکہ اس وقت ہوا جب ایک صاحب جو موجودہ حکومت کے زبردست حامی نظر آرہے تھے۔ وہ مہنگائی کو گزشتہ حکومتوں کا شاخسانہ قرار دینے پر ہی تلے ہوئے تھے جبکہ کچھ لوگ موجودہ حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ بحث بڑھتے بڑھتے‘ اتنی بڑھی کہ گروپ بندی تک پہنچ گئی۔ موجودہ حکومت کے حامیوں کا ایک گروپ جبکہ اس سے بیزار لوگوں کا دوسرا ٹولہ تشکیل پا چکا تھا۔کوئی بھی گروپ ایک دوسرے کی بات ماننے تو کیا‘ سننے کو بھی تیار نہ تھا۔بات توں تکرار تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ اس کے بعد ایک دوسرے کو‘محلے کی عورتوں کی طرح طعنے دینا شروع کر دئیے گئے۔یہاں تک بھی دونوں گروپوں نے اکتفا نہ کیابلکہ چار ہاتھ او رآگے نکل گئے اور بات گالی گلوچ تک بڑھ گئی۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے رویوں میں برداشت کا فقدان ناگزیر حد تک بڑھ چکاہے۔ اگر کہوں کہ برداشت ختم ہی ہوتی جا رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔کبھی ہم کھلے اشارے میں چلتی ٹریفک میں پیدل سڑک کراس کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب ہم سڑک کراس نہیں کر پاتے تو گاڑیوں‘ موٹر سائیکل سواروں کو‘ کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی حال ٹریفک سگنلز پر مجبوراً رکے ہوئے کار‘ موٹر سائیکل سواروں کا ہوتا ہے‘ وہ اشارہ کھلنے سے پہلے ہی سگنل توڑ کر چلے جاتے ہیں۔یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کے لئے بینک‘جی پی او وغیرہ جانا پڑ جائے تو لائن میں لگنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر لائن میں لگنا پڑ بھی جائے تو دھکم بیل شروع کر دیتے ہیں تاکہ جلدی سے ہماری باری آجائے۔ دوران سفر ایک دوسرے کے ساتھ ٹچ ہونے پر جھگڑنے میں ذرا قباحت محسوس نہیں کرتے۔دکاندار سے سودا سلف خریدنے جائیں تو کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں سودا ملے‘ خواہ کتنے ہی گاہک اور کیوں نہ کھڑے ہوں۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ معمولی معمولی باتوں پر ہم نے جانوروں کی طرح لڑنا جھگڑنااپنا شیوہ کیوں بنا لیا ہے ؟
ہمارے رویوں میںبرداشت کیسے آئے گی؟ اس کے لئے نہ ہمیں فیس بک کے نام نہاد مفکروں کے مشوروں کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی ٹویٹ کو فالو کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے ہمیں صرف اور صرف اپنے رویوں کو بدلنا ہو گا اور نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کر تے ہوئے‘ آپ کی تعلیمات پر عمل پیر اہونا ہو گا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ تو تھی ہی‘ صبر و برداشت کا مظہر ۔ آپ نے صبر و برداشت کے ذریعے پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ آپ نا ممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔ یہ آپ کا صبر و برداشت ہی تھا کہ کوڑا پھینکنے والی بڑھیا دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتی ہے۔سفر طائف کے دوران آپ کو لہو لہان کر دیا جاتا ہے لیکن آپ برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور انہیں بھی معاف فرما دیتے ہیں۔سب سے بڑھ کر‘ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان فرماتے ہیں۔
اگر ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ لیں تو ہماری زندگیوں سے غصہ‘ حسد‘ بغض‘ڈپریشن‘ بلڈ پریشر اور بہت ساری نفسیاتی بیماریاں خود بخود بھاگ جائیں گی۔قوت برداشت ‘ہمیں دوسرے ممالک سے امپورٹ نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اس کے لئے ‘ ہمیںاپنے رویوں کو بدلنا ہو گا ۔ خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے آپ کو عقلِ کُل تصور کرتے ہوئے‘ اس بات پر بضد ہو جاتے ہیں کہ جو میں نے کہہ دیا وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔جب اس قسم کی کا رویہ ہو گا تو پھر دوسرے کی بات ‘رائے خواہ جتنی بھی مدلل کیوں نہ ہو‘ ہم اس کو نہیں مانتے۔ ہمیں اپنی اس سوچ کو بدلنا ہو گا کہ جو میں نے کہہ دیا‘ وہی درست ہے اور باقی سارے غلط ہیں۔ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات کو اہمیت دی جائے بالکل اسی طرح ہمیں بھی دوسروں کی بات کواہمیت دیتے ہوئے‘ اس کو سمجھنے کی عادت ڈالناہو گی۔یہ کر نے کی سعی کردیکھیں‘ زیادہ مشکل نہیں ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks