
احمد عدنان طارق
نایاب بہت پیاری مگر تھوڑی سی عجیب لڑکی تھی۔ وہ اپنے کھلونوں کا بہت خیال کرتی تھی خاص طور پر اپنی پیاری گڑیا کا۔ مگر خدا کی پناہ اسے اپنی کتابوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اپنی کتابوں میں سے صفحے نکالنا اور پھر انہیں ریزہ ریزہ کر کے اپنے کمرے میں صحن پر گرانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں تنہا ہوتی۔ اپنی کتابوں کی الماری سے کسی تصویر والی کتاب کا انتخاب کرتی۔ فرش پر بیٹھ کر اس کتاب میں سے سب سے بہترین تصویر چنتی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تصویر کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتی۔نایاب کی امی اس کی اس عادت سے بہت نالاں تھی۔ انہوں نے نایاب کو کئی دفعہ پرانے اخبار دیئے کہ وہ بیٹھ کر انہیں پھاڑتی رہے مگر کتابوں کو پھاڑنے سے جو تسلی اسے ہوتی تھی وہ اخباروں کو پھاڑنے میں کہاں۔ پھر ایک دن ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔ نایاب گھر کی اوپر منزل پر واقع اپنے کمرے میں اکیلی تھی۔ کمرے میں مدہم روشنی جل رہی تھی اور شام ہو چکی تھی۔نایاب حسب سابق اپنی کتابوں کی الماری کے پاس گئی اس میں سے اپنی سب سے خوبصورت اور بڑے سائز کی نظموں والی کتاب نکالی۔ حالانکہ اس کی امی نے اسے اس کتاب کو ہاتھ لگانے سے بھی منع کر رکھا تھا۔ بڑے دنوں سے نایاب کے ہاتھ میں گویا کھجلی ہو رہی تھی۔ کہ کسی طرح وہ اس نظموں والی کتاب کی تصویروں میں موجود کرداروں کے ٹکڑے ٹکڑے کرے اور نہیں فرش پر گرائے۔ نایاب نے اس کتاب کو اٹھایا اور کھولا تو پہلے صفحہ پر ایک ادھیڑ عمر عورت اپنا جوتا دیکھ رہی تھی جو اس کے پاس زمین پر پڑا تھا جیسے ہی اس نے چاہا کہ تصویر والے جوتے کے دو ٹکڑے کر دے۔ اس کی طبیعت بھاری سی ہو گئی۔ اس کی آنکھیں جیسے نیند سے بوجھل ہو گئیں۔ نایاب نے بار بار اپنی آنکھیں جھپکیں۔ لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ اسے یقین نہیں ہو رہاتھا کہ ایسا ہو رہا ہے اسے لگا جیسے تصویر والی عورت کا جوتا تصویر سے باہر نکل آیا ہے اور وہ سائز میں بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ تصویر والی عورت بھی بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ نایاب کو اس کا منہ کھلتا اور بند ہوتا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ کچھ بڑ بڑا رہی ہے۔ نایاب کو اس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے بچوں کو بلا کر کہہ رہی تھی کہ شرارتوں سے باز آ جائو میں نے تمہارے بستر بچھا دیئے ہیں آ کر لیٹ جائو۔ اسی اثناء میں جوتا اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ اس نے نایاب کا آدھا کمرہ گھیر لیا تھا پھر نایاب نے کچھ بچوں کو جوتے کے گرد دوڑتے دیکھا وہ ہنس رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔ ان کو متوجہ کرنے کے لئے عورت نے تالی بجائی اور زور سے بولی کہ فوراً ادھر آئو۔اتنی دیر میں تین بچے دوڑتے ہوئے نایاب کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسے دیکھ رہے تھے وہ حیرت سے ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ یہ کیسی عجیب و غریب لڑکی ہے۔ ایسے لگتا ہے گویا اخبار کے کاغذ سے بنی ہو۔ نایاب نے فوراً اپنا آپ دیکھا تو ششدر رہ گئی اسے بھی واقعی خود کو دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی وہ بہت ہی باریک ہو گئی تھی اتنی باریک جتنا اخبار کا کاغذ۔ وہ بالکل ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی تصویر کسی کتاب سے نکالی گئی ہو۔ بچے ماں کو پکارنے لگے کہ وہ آ کے دیکھے کہ یہ کیسی عجیب لڑکی ہے جو کاغذ سے بنی ہے۔ عورت اپنے جوتے نما گھر سے نکلی اور جلدی سے نایاب کی طرف لپکی۔ اس نے نایاب کے قریب پہنچ کر اسے تعجب سے گھورااور اسے گویاپہچان کر بولی۔ ارے یہ تو وہی شرارتی لڑکی ہے جس کے متعلق ہر جگہ مشہور ہے کہ وہ اپنی بہترین کتابوں میں سے ساری خوبصورت تصویریں نکال کر پھاڑ دیتی ہے۔ اسے کئے کی سزا ملی ہے اور یہ خود ہی کاغذ کی بن گئی ہے۔ بچے چلائے تو پھر اسے بھی اس طرح پھاڑنا چاہیے جس طرح یہ تصویروں کو پھاڑتی تھی اور اسے تکلیف بھی نہیں ہونی چاہئے اگر واقعی یہ کاغذ سے بنی ہوئی ہے۔ نایاب ان کی باتیں سن کر خوفزدہ ہو گئی اور انہیں روکنے لگی کہ وہ اسے ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسے تکلیف ہو گی۔ ایک چھوٹے بچے نے نایاب کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا کہ آزما نے میں کیا حرج ہے۔ تم ہمیشہ کتابوں میں چھپے کرداروں کو پھاڑتی رہی ہو اب تمہاری باری ہے۔ نایاب نے اس سے ہاتھ جھٹک کر چھڑوایا اور دھمکی دی کہ’’ اگرتم نے مجھے ہاتھ لگایا تو میں شور مچا کر اپنی امی جان کو بچا لوں‘‘۔ لیکن وہ تو یہاں نہیں ہیں۔ یہاں صرف ان کی ماں ہے اور اگر تم نے شور مچایا تو سزا کے طور پر وہ تمہیں زبردستی بستر میں گھسیڑ دیں گی اور اٹھنے نہیں دیں گی۔ بچوں نے اس کی دھمکی نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔نایاب نے کہا کہ میں تو کاغذ کی بنی ہوئی نہیں ہوںاور اگر میں اس وقت کاغذ کی بنی ہوئی لگ بھی رہی ہوں تو میں نے دوبارہ ٹھیک ہو جانا ہے اور اگر تم نے میرا بازو علیحدہ کر دیا تو میں کبھی پھر ٹھیک نہیں ہو سکوں گی۔ مہربانی فرما کر مجھے نقصان نہ پہنچانا۔ نایاب نے بچوں کی منت کر تے ہوئے کہا لیکن تم ہمیشہ یہی کام خود کرتی رہی ہو اب ہمیں کیوں منع کرتی ہو۔ بچوں نے ڈھٹائی سے کہا تو نایاب نے بچوں کو کہا کہ اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے وہ اس غلطی کو اب کبھی نہیں دہرائے گی لیکن اتنی دیر میں ایک بڑا بچہ خاموشی سے نایاب کے عقب میں گیا اور نایاب کی فراک پھاڑ دی۔ ایسی آواز آئی جیسے کوئی اخبار پھٹا ہو۔ بے چاری نایاب کی چیخ نکل گئی اوہ شرارتی برے لڑکے تم نے میرا اتنا خوبصورت فراک پھاڑ دیا ہے۔ نایاب کی سسکیاں نکل رہی تھیں۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے بڑے بچے کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کیا وہ درد سے چلایا اور اس نے تھپڑ کے جواب میں نایاب کو ایک مکہ رسید کر دیا۔ وہ رونے لگی تو دوسرے بچے چلانے لگے۔نایاب نے فرار ہونے کے لئے گھر کاجائزہ لیا لیکن عورت نے جوتے والے گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ اتنے میں نایاب کو ایک اور دروازہ دکھائی دیا اور وہ وہاں سے بھاگ نکلی۔ عورت پکارتی رہ گئی مگر نایاب اس کی دسترس سے نکل چکی تھی۔ نایاب جلدی سے سیڑھیاں اترنے لگی تو اچانک کسی سے اس کی ٹکر ہو گئی۔ کیا ہوا نایاب بیٹا؟ کیوں گھبرائی ہوئی ہو؟ وہ اس کی امی جان تھیں جو اسے گھبرائے ہوئے دیکھ کر خود بھی پریشان ہو گئی تھیں۔ اس نے ہڑ بڑا کر دیکھا تو وہ بالکل پہلے جیسے ہو چکی تھی۔ اس جگہ اندھیرا تھا اسے یقین نہیں آیا کہ وہ ٹھیک ہو گئی ہے اس نے امی کو کہا کہ وہ دیکھیں کہ کہیں وہ کاغذ سے تو نہیں بنی ہوئی۔ اس نے امی کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ تم خواب تو نہیں دیکھ رہی تھیں؟ نایاب کی ماں اس کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں چڑھ کر دوبارہ اس کے کمرے میں آ گئیں۔بتی کو روشن کیا اور اسے کہنے لگیں کہ وہ بالکل گوشت پوست کی بنی انسان ہے کاغذ کی نہیں۔ تب نایاب نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن پھر امی جان سخت ناراض ہونے لگیں کیونکہ نایاب کا خوبصورت فراک دو جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ ان کے پوچھنے پر نایاب نے انہیں بتایا کہ ایک لڑکے اور اس کی ماں نے اسے پھاڑا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ امی جان اس کے کہے کا یقین نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے اس کی سخت سرزنش کی۔ تم بری بچی ہو تم نے کاغذی تصویروں کے علاوہ کپڑے پھاڑنے بھی شروع کر دیئے ہیں۔ مجھے تمہیں سزا دینی ہو گی۔ میں تم سے سخت ناراض ہوں۔ نایاب رونے لگی اور امی سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی کتابیں نہیں پھاڑے گی۔ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks