نومبر کی شام نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنوبی ایشائی تنظیم برائے علاقائی تعاون(سارک) کے اٹھارویں سر براہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات سے پاک جنوبی ایشاء ان کا خواب ہے۔ جنوبی ایشیاء کے خطے میں دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ رہتا ہے۔
بھارت کو چین کے بعد آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں دوسرا مقام حاصل ہے، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا بھی گنجان آبادی والے ممالک ہیں۔ خلیج بنگال، خلیج فارس ، بحیرہ عرب بحرہ ہند مشرق و مغرب کے درمیان رابطے بہت بڑا ذریعہ ہیں اور عرصہ قدیم سے ہی بحری تجارت کے حوالے سے بڑے اہم سمجھے جاتے ہیں روس اور چین جیسے بڑے ممالک جنوبی ایشا کے ممالک سے جغرافیائی اعتبار سے بہت قریب ہیں۔ جنوبی ایشاء کے اکثر ممالک برس ہا برس مغربی استعماری قوتوں کے زیر نگیں رہے۔ اگرچہ اب یہ نو آبادیاتی نظام سے آزاد توہیں مگر ان ممالک میں ایک ارب 20کروڑ افراد غربت کے کم از کم معیار سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، ہندوستان میں 55کروڑ سے زائد افراد گندگی کے ڈھیروں سے کھانا کھاتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش، نیپال، میانمار اور افغانستان میں بھی عوام کی اکثریت کو بمشکل دو وقت روٹی کا نوالہ ملتا ہے، پاکستان میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد روزانہ ایک ڈالر اور 12کروڑ افراد بمشکل دو ڈالرز یومیہ پر زندگی کی ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ممالک دنیا کی کل آمدنی میں صرف 6فیصد کے حصے دار ہیں اور یہاں جہالت ،ناخواندگی، سیاسی اور سماجی انتشار، مذہبی ،لسانی اور گروہی جھگڑے اور دہشت گردی جیسے مسائل نے ان ممالک کو اندرونی طور پر معاشی لحاظ سے اسقدر کمزور کر دیا ہے کہ یہ دیگر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرتے ہیں اور پھر انہی ممالک کو اپنی ملکوں میں فیکٹریاں کار خانے قائم کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور ان ممالک کی سستی لیبر سے تیار کردہ مغربی کمپنیوں کی مصنوعات انہی ممالک کے باشندے کئی گنا قیمت پر خریدتے ہیں ، چونکہ ان ممالک کے آپس میں باہمی تنازعات ہیں جس میں سب سے بڑا تنازعہ دو نیو کلیئر قوتوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر ہے اسکے علاوہ جموں کشمیر، سیا چین گلیشئر ، سرحدی جھڑپیں، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی، کارگل پر تنازعہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہندوستان کی انٹیلی جنس ادارے ’’را‘‘ کی کارروائیاں ، اسکے علاوہ وہ بنگلہ دیش کی طرف سے بھارت کے خلاف فرخا بیراج بنانے، دریائی پانی پر قبضہ کرنے اور بنگلہ دیش کی معیشت اور تجارت پر کنٹرول کرنے کی کوشش کا بھی الزام ہے، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی بہت سارے معاملات پر کشیدگی ہے۔
1971ء میں پاکستان کی حمایت کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی کی سزا دینا، اثاثوں کی تقسیم اور ڈھائی لاکھ بہاریوں کی پاکستان منتقلی جیسے مسائل، بھارت کا سری لنکا میں تامل اور سنہالی باشندوں میں بالا دستی قائم کرنے کا ادارہ جیسے معاملات نے سارک ممالک کی تنظیم کو اسکے قیام کے 29سال بعد بھی غیر مؤثر بنائے رکھا ہوا ہے، سارک کی تنظیم جس کا قیام بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمن کی خواہش پر 1985ء میں عمل میں آیا تا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں عوام کی بھلائی اور بہتر معیار زندگی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
سارک فی الحال آٹھ ممالک کی تنظیم ہے تا ہم یہ زیادہ موثر تبھی بن سکتی ہے کہ اگر مستقبل میں چین کو بھی اسکا باقاعدہ رکن بنایا جائے دوسرا بھارت نیپال، میانمار، مالدیپ اور بھوٹان کو اپنی اجارہ داری اور اپنے حلقہ اثر میں لانے کا خیال ترک کر دے تیسرا پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے تحت حل ہونے دے اور مقبوضہ کشمیر سے اپنی 7 لاکھ زائد فوجیں واپس بلائے۔
اس وقت ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بھی اپنے بجٹ کا 20فیصد سے زائد حصہ دفاعی اخراجات کے لئے مختص کرنا پڑتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے تاریخی تناظر میں مسئلہ کشمیر 2014ء کا تجزیہ کرتے ہوئے نوائے وقت کی معروف کالم نگار عائشہ مسعود نے بہت سارے ریسرچ سکالرز کی تحریروں کے حوالے سے اس امر کو جواز بخشا ہے جب تک بھارت کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ ختم نہیں کرتا ہے اس خطے میں غربت ، جہالت، دہشت گردی، بیروزگاری، جیسے مسائل کبھی ختم نہیں ہو سکتے ہیں محترمہ عائشہ مسعود اپنی حالیہ تحقیقاتی کتاب کشمیر2014میں رقمطراز ہیں۔ 2014میں دنیا کے انسانوں کے پر امن مستقبل کیلئے ، اقوام متحدہ کو عالمی امور پر منافقت اور دوہرا معیار اختیار کرنے کی علت کو دور کرنا پڑے گا۔ کیونکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کی مذمت اور خلاف ورزیاں کرنے کی عادت ساتھ ساتھ چل رہی ہے فلسطین افغانستان ، کیوبا، میانمار عراق اور کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم اور نا انصافیاں عرصہ دراز سے مسلسل جاری ہیں، وہ انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن ممالک، اداروں اور تنظیموں سے یہ سوال کرتی ہیں کیا کشمیر میں صرف موت ہی آزادی اور سکون کا پیغام لا سکتی ہے۔
نامور مصنف ولیم ڈبلیو بیکر کشمیریوں کی حالت زار کا ذکر تے ہوئے اپنی کتاب موجودہ کشمیر میں لکھتا ہے اپنی بقاء اور حق خودارادیت کی خاطر حیات و موت کی کشمکش میں جکڑی آج یہ وادی خوباں موت کی وادی بن چکی ہے۔ 13ملین سے زائد آبادی پر مشتمل اس خطے میں بنیادی طور پر مسلمان بستے ہیں۔ یہ مسلمان روزانہ بھارتی فوجیوں کی گولیوں اور ظلم و جبر کا سامنا کرتے ہیں کشمیری قوم جس ننگی جارحیت ظلم و ستم اور تعصب میں زندگی بھارتی قبضہ کے تحت گزار رہی ہے اسکا موازنہ دنیائے جدید کے کسی بھی خطے کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
قارئین سارک کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے کشمیر کے مسئلہ کو کشمیری عوام کی امنگوں اور آرزئوں کے مطابق حل کرنا بے حد ضروری ہے وگرنہ سارک کانفرنس میں ممبر ممالک باہمی تجارت اور تعاون سے کسی صورت میں فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے وزیر اعظم نواز شریف کو ہندوستان کو موسٹ فیورٹ نیشن اور کشمیر کے مسئلہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں خاصا زچ ہونا پڑا۔ جس پر آج جنوبی ایشیا کے معاملات پر ان کا بیانیہ بھی وہی ہو گیا ہے جو ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔
چند ماہ بیشتر انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں واضح کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر اور خیر سگالی کے تعلقات استوار نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر ہندوستان مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف بدل لے تو پاکستان جو جنوبی ایشا میں گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم مقام پر ہے تو سارک ممالک کی یہ تنظیم چین کی شمولیت کے بعد یورپی یونین کی طرز پر اربوں انسانوں پر خوشحالی ، امن ، اچھی تعلیم، صحت اور روز گار کے دروازے کھول سکتی ہے اور پاکستان ہندوستان اور سارک کے دیگر ممالک کو چین اور وسطی ایشیا کے ممالک تک راہداری کی سہولتیں فراہم کر کے جنوبی ایشیا کے باشندوں پر ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks