سمندر کی بیٹی
وسعتوں سے سدا اُس کا ناتا رہا تھا
کھُلے آسمانوں
کھُلے پانیوں
اور کھُلے بازوؤں سے ہمیشہ محبت رہی تھی
ہَوا،آگ،پانی،کرن اور خوشبو
وہ سارے عناصر جو پھیلیں تو ہر دو جہاں اپنی بانہوں میں لے لیں
سد ا اُس کے ساتھی رہے تھے
وہ جنگل کی اَلھڑ ہوا کی طرح راستوں کے تعین سے آزاد تھی
وہ تو تخلیقِ فطرت تھی
پر خُوبصورت سے شوکیس میں قید کر دی گئی تھی
قفس رنگ ماحول کے حبس میں سانس روکے ہُوئے تھی
کہ اِک دم جو تازہ ہَوا کی طرح
اِک نویدِ سفر آئی۔تو
ایک لمحے کو آزاد ہونے کی وحشی تمنا میں ۔وہ
ایک بچے کی صُورت مچلنے لگی
شہر سے دُور
ماں کی محبت کی مانند
بے لوث،بے انتہا مہرباں دوست اُس کے لیے منتظر تھا
نرم موجیں کھُلے بازوؤں اس کی جانب بڑھیں
اور وہ بھی ہوا کی طرح بھاگتی ہی گئی
اور پھر چند لمحوں میں دُنیا نے دیکھا
سمندر کی بیٹی سمندر کی بانہوں میں سمٹی ہُوئی تھی!
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote



Bookmarks