شبلی و حالی
مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا
دیوان جزو و کل میں ہے تیرا وجود فرد
تیرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو
تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد
پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی
نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد
مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات
کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد
پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ راز دار
کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد
مسلم مرے کلام سے بے تاب ہو گیا
غماز ہو گئی غم پنہاں کی آہ سرد
کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں
اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد
خاموش ہو گئے چمنستاں کے راز دار
سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں
حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد
''اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد''
Similar Threads:
Bookmarks