google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: تصویر درد

    Hybrid View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      تصویر درد

      تصویر درد




      نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
      خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
      یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
      یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
      اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے
      چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
      اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلبوں نے
      چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
      ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
      سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری
      الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
      حیات جاوداں میری ، نہ مرگ ناگہاں میری!
      مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
      وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری
      "دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم
      ز فیض دل تپیدنہا خروش بے نفس دارم"
      ریاض دہر میں نا آشنائے بزم عشرت ہوں
      خوشی روتی ہے جس کو ، میں وہ محروم مسرت ہوں
      مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی
      میں حرف زیر لب ، شرمندۂ گوش سماعت ہوں
      پریشاں ہوں میں مشت خاک ، لیکن کچھ نہیں کھلتا
      سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں
      یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
      سراپا نور ہو جس کی حقیقت ، میں وہ ظلمت ہوں
      خزینہ ہوں ، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے
      کسی کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں!
      نظر میری نہیں ممنون سیر عرصۂ ہستی
      میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں
      نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
      میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
      مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
      وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
      عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں
      کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں
      اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا
      مرا آئینۂ دل ہے قضا کے راز دانوں میں
      رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
      کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
      دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا
      لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں
      نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں!
      تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
      چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
      عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
      سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
      وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
      وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
      تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
      ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
      دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
      یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر
      زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
      نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
      تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
      یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے
      جو ہے راہ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے
      ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
      لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
      جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
      تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
      مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
      چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا
      پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
      جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
      مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
      کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
      دکھا دوں گا جہاں کو جو مر ی آنکھوں نے دیکھا ہے
      تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
      جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے
      زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے
      کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے
      گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے
      رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو
      کیا بیرون محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے
      فدا کرتا رہا دل کو حسنیوں کی اداؤں پر
      مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
      تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
      یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
      سراپا نالۂ بیداد سوز زندگی ہو جا
      سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے
      صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے
      کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے
      زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
      غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے
      زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل!
      بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
      کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا
      ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے
      ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
      نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
      دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پرنم کو
      جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو
      نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا
      بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو
      اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
      نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
      شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
      یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
      نہ اٹھا جذبۂ خورشید سے اک بر گ گل تک بھی
      یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو
      پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں
      یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
      محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
      ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے
      دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا
      علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا
      شراب بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری
      شکت رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا
      تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں
      عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا
      بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا
      چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا
      جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
      غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا
      یہ استغنا ہے ، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو
      تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا
      نہ رہ اپنوں سے بے پروا ، اسی میں خیر ہے تیری
      اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا
      شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی
      سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا
      محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
      کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
      بیابان محبت دشت غربت بھی ، وطن بھی ہے
      یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی ، چمن بھی ہے
      محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے ، صحرا بھی
      جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے
      مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا
      چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے
      جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
      یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
      وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
      یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی ، کوہکن بھی ہے
      اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو
      مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟
      سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ
      زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے
      نمیگردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کر دم
      حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کر دم


      Similar Threads:

    2. #2
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      511

      Re: تصویر درد

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      تصویر درد




      نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
      خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
      یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
      یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
      اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے
      چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
      اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلبوں نے
      چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
      ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
      سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری
      الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
      حیات جاوداں میری ، نہ مرگ ناگہاں میری!
      مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
      وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری
      "دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم
      ز فیض دل تپیدنہا خروش بے نفس دارم"
      ریاض دہر میں نا آشنائے بزم عشرت ہوں
      خوشی روتی ہے جس کو ، میں وہ محروم مسرت ہوں
      مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی
      میں حرف زیر لب ، شرمندۂ گوش سماعت ہوں
      پریشاں ہوں میں مشت خاک ، لیکن کچھ نہیں کھلتا
      سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں
      یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
      سراپا نور ہو جس کی حقیقت ، میں وہ ظلمت ہوں
      خزینہ ہوں ، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے
      کسی کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں!
      نظر میری نہیں ممنون سیر عرصۂ ہستی
      میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں
      نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
      میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
      مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
      وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
      عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں
      کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں
      اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا
      مرا آئینۂ دل ہے قضا کے راز دانوں میں
      رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
      کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
      دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا
      لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں
      نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں!
      تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
      چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
      عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
      سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
      وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
      وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
      تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
      ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
      دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
      یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر
      زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
      نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
      تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
      یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے
      جو ہے راہ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے
      ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
      لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
      جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
      تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
      مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
      چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا
      پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
      جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
      مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
      کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
      دکھا دوں گا جہاں کو جو مر ی آنکھوں نے دیکھا ہے
      تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
      جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے
      زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے
      کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے
      گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے
      رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو
      کیا بیرون محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے
      فدا کرتا رہا دل کو حسنیوں کی اداؤں پر
      مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
      تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
      یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
      سراپا نالۂ بیداد سوز زندگی ہو جا
      سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے
      صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے
      کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے
      زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
      غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے
      زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل!
      بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
      کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا
      ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے
      ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
      نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
      دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پرنم کو
      جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو
      نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا
      بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو
      اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
      نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
      شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
      یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
      نہ اٹھا جذبۂ خورشید سے اک بر گ گل تک بھی
      یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو
      پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں
      یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
      محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
      ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے
      دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا
      علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا
      شراب بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری
      شکت رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا
      تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں
      عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا
      بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا
      چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا
      جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
      غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا
      یہ استغنا ہے ، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو
      تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا
      نہ رہ اپنوں سے بے پروا ، اسی میں خیر ہے تیری
      اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا
      شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی
      سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا
      محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
      کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
      بیابان محبت دشت غربت بھی ، وطن بھی ہے
      یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی ، چمن بھی ہے
      محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے ، صحرا بھی
      جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے
      مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا
      چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے
      جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
      یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
      وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
      یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی ، کوہکن بھی ہے
      اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو
      مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟
      سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ
      زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے
      نمیگردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کر دم
      حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کر دم
      Umda Intekhab
      Share karne ka shukariya


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: تصویر درد

      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      Umda Intekhab
      Share karne ka shukariya





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •