ا یسا تو نہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی

جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی

بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی

پیشِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی

تیرے بغیر بھی غمِ جاں ہے وہی کہ نہیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نہیں ہوئی

ہم کون پیرِ دل زدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نہیں ہوئی

کیا سہل اُس نے بخش دیا چشمۂ حیات
جی بھر کے سیرِ وادیِ ظلمات نہیں ہوئی

میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نہیں ہوئی

اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزتِ سادات نہیں ہوئی

یاقوت لب تو کارِ محبت کا ہے صلہ
اُ جرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی

کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو جیئے
اب تک تری طرف سے شروعات نہیں ہوئی
---------------------------------

افضال احمد سید کے مجموعے خیمۂ سیاہ کی غزل میں ایسا ہی اک شعر ملتا ہے:
بانوئے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے
اُس سے ہم جنگ کریں گے وہ شروعات کرے
حاشیہ : سید انور جاوید ہاشمی





Similar Threads: