اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا
شاید خبر نہیں ہے غزالانِ شہر کو
اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا
اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا
اب ڈھونڈ اور قدر شناسانِ رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا
اک اسمِ جاں پہ ڈال کے خاکِ فرامشی
اندھے صدف میں ہم نے گہر بند کر دیا
***
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote




Bookmarks