اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو تہذیب نوی کار گہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
Bookmarks