تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں ، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم

ہے گراں سیر غم راحلہ و زاد سے تو
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم




٭ ٭ ٭ ٭





Similar Threads: