خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے ، سنگ خارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلہ مرد ہیچ کارہ نہیں
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو ، تابع ستارہ نہیں
یہیں بہشت بھی ہے ، حور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں
غضب ہے ، عین کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعل ناب میں آتش تو ہے ، شرارہ نہیں
٭ ٭ ٭ ٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote


Bookmarks