google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: 'ما از پے سنائی و عطار آمدیم'

    Hybrid View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      'ما از پے سنائی و عطار آمدیم'



      'ما از پے سنائی و عطار آمدیم'





      ا علیٰ حضرت شہید امیرالمومنین نادر شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر1933ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی رحمۃاللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی - یہ چند افکار پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے ، اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کیے گئے-:


      سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
      غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحرا
      خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
      یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
      نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
      کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
      رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
      کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
      خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں
      زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
      نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
      تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولی!
      بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
      یہاں ساقی نہیں پیدا ، وہاں بے ذوق ہے صہبا
      نہ ایراں میں رہے باقی ، نہ توراں میں رہے باقی
      وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسری
      یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
      گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا!
      حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
      یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
      ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
      'گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا1 '!
      لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مے 'لا' سے
      مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ 'الا'
      دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
      بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
      اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
      نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
      غلامی کیا ہے ؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
      جسے زیبا کہیں آزاد بندے ، ہے وہی زیبا
      بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
      کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
      وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
      زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
      فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
      مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا
      رہے ہیں ، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
      مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا
      وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
      جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا
      محبت خویشتن بینی ، محبت خویشتن داری
      محبت آستان قیصر و کسری سے بے پروا
      عجب کیا رمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
      'کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سر خود را'2
      وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
      غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
      نگاہ عشق و مستی میں وہی اول ، وہی آخر
      وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یسیں ، وہی طہ
      سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
      ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
      ۔۔۔۔۔
      1 یہ مصرع حکیم سنائی کا ہے
      2 یہ مصرع مرزا صائب کا ہے جس میں ایک لفظی تغیر کیا گیا


      Similar Threads:

    2. #2
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      511

      Re: 'ما از پے سنائی و عطار آمدیم'

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


      'ما از پے سنائی و عطار آمدیم'





      ا علیٰ حضرت شہید امیرالمومنین نادر شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر1933ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی رحمۃاللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی - یہ چند افکار پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے ، اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کیے گئے-:


      سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
      غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحرا
      خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
      یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
      نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
      کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
      رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
      کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
      خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں
      زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
      نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
      تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولی!
      بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
      یہاں ساقی نہیں پیدا ، وہاں بے ذوق ہے صہبا
      نہ ایراں میں رہے باقی ، نہ توراں میں رہے باقی
      وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسری
      یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
      گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا!
      حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
      یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
      ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
      'گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا1 '!
      لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مے 'لا' سے
      مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ 'الا'
      دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
      بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
      اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
      نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
      غلامی کیا ہے ؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
      جسے زیبا کہیں آزاد بندے ، ہے وہی زیبا
      بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
      کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
      وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
      زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
      فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
      مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا
      رہے ہیں ، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
      مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا
      وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
      جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا
      محبت خویشتن بینی ، محبت خویشتن داری
      محبت آستان قیصر و کسری سے بے پروا
      عجب کیا رمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
      'کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سر خود را'2
      وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
      غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
      نگاہ عشق و مستی میں وہی اول ، وہی آخر
      وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یسیں ، وہی طہ
      سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
      ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
      ۔۔۔۔۔
      1 یہ مصرع حکیم سنائی کا ہے
      2 یہ مصرع مرزا صائب کا ہے جس میں ایک لفظی تغیر کیا گیا
      Umda aor Lajawab Sharing ka shukariya


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: 'ما از پے سنائی و عطار آمدیم'

      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      Umda aor Lajawab Sharing ka shukariya
      خوب صورت آراء اور پسند کا بہت بہت شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •