زمانہ کچھ نہیں بدلا،محبت اب بھی باقی ہے
محبت زندگی کے باغ میں پھولوں کی ٹہنی ہے
محبت کے ارادے معجزوں سے کم نہیں ہوتے
سمندر پار کرنے کے لئے کاغذ کی کشتی ہے
کبھی سو چا خُدا کے سامنے اک روز جانا ہے
ترا مذہب غزل ہے اور غزل میں بت پرستی ہے
محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیئے
لیکن زمیں سے چاند بہت دور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی اَنا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبور ہو گیا
دادی سے کہنا اس کی کہانی سنائے وہ
جو بادشاہ عشق میں مزدور ہو گیا
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks