دشت و صحرا اگر بسائے ہیں
ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں
ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی مجھ کو
بس اک چراغ کی خواہش بس اک شرار کی آس
وہ کالے کو کی دوری اب ایک خواب سی ہے
تم آ گئے ہو مگر کب نہ تھے ہمارے پاس
پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں
اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے
کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو
محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے
مجھ کو زنداں میں بھی مل جائے گا عنوانِ جنوں
نگہتِ گُل کو کریں قید خیاباں زادے
مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks