یہ دشتِ دید ترستا ہے کیوں نظر کو تری
بہ قیدِ چشم ہیں کیوں کر ابھی غزال ترے
نکلنے دیں گے کہاں حلقۂ ضیا سے مُجھے
سحر نما یہ کرشمے ترے، خیال ترے
ویرانیِ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر
اِس راہگزر سے نمِ موسم سا گُزر جا
رہنے دے کسی پل تو یہ اندازِ شہابی
مختار ہے تو ۔۔۔ پھر بھی کوئی دم تو ٹھہر جا
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظر تاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے میں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
جذبوں کی مشعلیں ہوں فروزاں سرِ زباں
محفل دل و نگاہ کی یوں بھی سجائیں ہم
ماجدؔ کبھی تو رشتۂ جاں ہو یہ اُستوار
قوسیں یہ بازوؤں کی کبھی تو ملائیں ہم
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks