طُرفہ ہے بہت نگاہِ ماجدؔ
یہ شاخ کبھی ہلا کے دیکھو
گمان، برگ و ثمر پر ترا ہی صبح و مسا
خطوطِ حُسن ہویدا ہیں، ڈال ڈال ترے
طُرفہ ہیں بُہت میرے دل و جاں کی پھواریں
اس بزم میں آ اور مثالِ گُلِ تر جا
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے
دیکھے بہ رشک چاند ہمیں جھانک جھانک کر
یوں بھی بہ لطفِ خاص کبھی جگمگائیں ہم
بفیضِ قرب پھریں مستیِ نظر کی رُتیں
کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کھِلیں
کبھی تو دیجئے آ کر اِنہیں بھی اِذنِ کشود
پڑی ہیں خوں میں جو گرہیں کسی طرح تو کھُلیں
چاند سے اِس رُخِ منّور کو
حرفِ انکار سے نہ گہناؤ
یخ ہیں پہلو مرے کبھی اِن کو
حدتِ جسم و جاں سے گرماؤ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks