چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظر تاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
باہم طراوتِ شبِ راحت لٹائیں ہم
موسم سے یہ خراج کسی دم تو پائیں ہم
دیکھے بہ رشک چاند ہمیں جھانک جھانک کر
یوں بھی بہ لطفِ خاص کبھی جگمگائیں ہم
بفیضِ قرب پھریں مستیِ نظر کی رُتیں
کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کھِلیں
وہ دِن بھی آئیں کہ با لطفِ دید ہم ماجدؔ
نظر کے حُسن سے باہم فضا میں رنگ بھریں
یخ ہیں پہلو مرے کبھی اِن کو
حدتِ جسم و جاں سے گرماؤ
بھٹکنے دو گے نہ کب تک اِسے قریب اپنے
مرے خیال کے پر کب تلک جلاؤ گے
گمان و وہم کی دلدل سے جانے کب ماجدؔ
ہماری جانِ گرفتہ کو تم چھڑاؤ گے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks