ہو گیا بے نیازِ سینہ دل
جامے کو حاجتِ رفو نہ رہی
نا امیدی سی نا امیدی ہے
آرزو کی بھی آرزو نہ رہی
اس کی سرمستئ نظر کے طفیل
حاجتِ ساغر و سبو نہ رہی
بند کوچے کی دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں
اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں
ہاں مگر، با وقار نکلے ہیں
گھر کا رستہ نہ مل سکا ہم کو
گھر سے جو ایک بار نکلے ہیں
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks