حاکمِ وقت کو یوں بھی نہیں گوشِ فریاد
اور پھر تہنیتِ نذر گزاراں بھی تو ہے
ایسے آشوب میں کس طرح سے چُپ بیٹھا جائے
خون میں تاب و تبِ حوصلہ داراں بھی تو ہے
نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں
یہ آگ تیرے ہی افسوں کی ہے لگائی ہوئی
تری سزا ہے کہ اب آگ ہی میں پھول کھلا
بہار کب سے سرِ کوئے شب رکی ہوئی ہے
کوئی کہو کہ ذرا روشنی میں پھول کھلا
نسیم حجرہ نشیں لوگ انتظار میں ہیں
دریچے کھول، ہماری گلی میں پھول کھلا
موجِ خوں نے کسے سیراب کیا ہے اب تک
لے کے کیا کرنا ہے یہ چشمۂ جاری ہم نے
بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار
اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے
جو دیکھئے تو نہ تیغِ جفا، نہ میرا ہاتھ
جو سوچئےتو کہیں زیرِ سنگ سا کچھ ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks