وہ جس نے عین جوانی میں ہم کو مار دیا
ندیم اس سے جڑی تھیں توقعات بہت
تمہارے بعد خود کو دیکھنا ہے
کہ مجھ میں اور کتنا حوصلہ ہے
مکمل تجھ کو بھی کرنا نہیں ہے
تجھے لکھ کر ادھورا چھوڑنا ہے
زمیں کا آخری حصہ ہیں آنکھیں
جہاں انسان آ کر ڈوبتا ہے
نہ جانے کس پہ مشکل وقت آیا
کوئی خط میں ہتھیلی بھیجتا ہے
محبت ہی خدا سے مانگتے ہیں
محبت ہی ہمارا مسئلہ ہے
مجھے پانی نے یہ پیغام بھیجا
کہ ستلج پھر سے بہنے لگ پڑا ہے
ندیم اک شخص کو پانے کی خاطر
مجھے حد سے گزرنا پڑ گیا ہے
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks